کسی قدیم جنگجو کا قول ہے کہ ’دشمن چھوٹا ہو یا بڑا جیت ہمت سے ہی ملتی ہے‘۔ اگربھارت کے ہاتھوں دبئی کی درگت کے بعد اس بارے میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ بنگلہ دیش جیسی دوسرے درجے کی ٹیم نے ابوظبی میں پوری کردی۔
اشتہار
پاکستان ایشیا کپ پہلی بار نہیں ہارا ہے لیکن گزشتہ دس دن میں حریفوں کے سامنے اس ٹیم کی جو بے بسی اور بے بصری دکھائی دی، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
بارہ رنز پر بنگلہ دیش کی تین وکٹیں گرانے کے بعد شعیب ملک کو گیند ملنے سے ہی لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کوفائنل کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ویسے بھی بھارت سے ایک ٹورنامنٹ میں مسلسل تین میچ ہارنے کا خطرہ کون مول لینا چاہے گا؟
ان ناکامیوں کا ملبہ صرف کپتان پر گرانا جائز نہ ہوگا۔ اب بھی سرفراز احمد ہی ایک ایسے شخص ہیں جواس ٹیم کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ ہاں خود 'آؤٹ آف فارم‘ ہونے کی وجہ سے بھی وہ دباؤ میں آ کر فیلڈ پر اچھے فیصلے نہ کرسکے۔ اس طرح کی صورتحال سے دوچار کپتان کو ہمیشہ 'ٹیم لیڈر شپ گروپ‘ سے مدد درکار ہوتی ہے لیکن اظہر اور حفیظ کو مضحکہ خیز انداز میں نظر انداز کر دیا گیا اور شعیب ملک کا بھی فیصلہ سازی میں کوئی کردار دکھائی نہ دیا۔
سرفراز احمد کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی کہ ان کے دونوں 'میچ ونرز‘ محمد عامر اور فخر زمان امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔ انہیں خلیج کی 'سلو پچز‘ راس نہ آئیں۔ انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ وغیرہ، جہاں بلے پر گیند تیز آتی ہے فخر زمان اب بھی کارگرہوں گے۔
دراصل اس ناکامی کا بیج لاہورمیں اسی دن بو دیا گیا تھا جب سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ نے سکواڈ میں چھ فاسٹ باؤلرز کو جگہ دی۔ دیگر تمام ٹیمیں مستند اسپنرز لے کر گلف گئیں، مگر مکی آرتھر کی سوئی میڈیم پیسرز پر ہی اٹکی رہی۔
اماراتی سر زمین پر بارہ برس بعد پاک بھارت کرکٹ میچ
04:11
داناؤں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کے نگہبان شاید اپنی غلطیوں سے بھی سیکھنے کے رودار نہیں۔ ابھی ایک سال نہیں ہوا جب سری لنکا کے خلاف ابوظبی اور دبئی کے ٹیسٹ میچوں میں تین تین فاسٹ باولرز کھلانے کی ضد کا انجام پاکستان کے وائٹ واش پر ہوا تھا۔
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد کوچ نے ہی نئے خون کے نام پر اظہر علی اور محمد حفیظ جیسے آزمودہ کاروں کو باہر کا راستہ دکھا دیا، اس سے اچھی بھلی ٹیم کا شیرازہ بکھرگیا۔ ایشیا کپ میں ہرمیچ میں ٹیم تبدیل کی گئی اور سوائے شان مسعود کے سکواڈ کے ہر کھلاڑی کو آزمایا گیا لیکن وننگ کمبینیشن پھر بھی نہ بن سکا۔
آصف علی اور محمد نواز ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے باصلاحیت کرکٹر ہیں لیکن پچاس اوورز کی کرکٹ ان کے بس کی بات نظرنہیں آئی۔ فہیم اشرف اورحارث سہیل کو بھی ایک میچ کے بعد ہی بنچ پربٹھا دیا گیا لیکن زخمی ہونے کے باوجود شاداب خان کو کھلایا جاتا رہا۔ بھارت کے خلاف دونوں بار ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی 'ٹیم باس‘ کی ضد کا نتیجہ تھا۔
تو پھر ذہنوں میں یہ سوال سلگ رہا ہے کہ ایک شخص کو اتنے سارے شاٹس کھیلنے کی اجازت آخر کس نے دی؟ اصل میں مکی کے اندر کے 'جہاں پناہ‘ کی تاج پوشی خود پاکستان کرکٹ بورڈ نے کی اور یہ کام اسی دن ہوگیا تھا جب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے مشہور عمر اکمل کے کسی ایک الزام پر بھی کان دھرنا گوارا نہ کیا گیا۔
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔