1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ ء بنگلہ دیش کی مخالفت

طارق سعید، لاہور6 جنوری 2014

پاکستانی کرکٹرز خلیج میں جاری ٹیسٹ سیریز میں سری لنکا سے برسر پیکار ہے مگر ملک میں زیادہ دلچسپی اس بات میں لی جا رہی ہے کہ آیا پاکستانی کرکٹ ٹیم ایشیاء کپ اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ کرے گی؟

تصویر: Karim Sahib/AFP/Getty Images

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان گز شتہ چند ہفتوں سے سیاسی تناؤ عروج پر ہے تاہم ایشیا کپ میں شرکت کی بابت پاکستان کرکٹ بورڈ ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پی سی بی کے ترجمان ندیم سرور نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’بنگلہ دیش میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ہم اس سلسلے میں حکومتی مشورے پر عمل کریں گے اور فیصلہ رواں ہفتے دبئی میں آئی سی سی کے اجلاس میں ہوگا۔

سنیچرکو ایشیائی کرکٹ کونسل﴿ اے سی سی﴾ نے بنگلہ دیش میں جاری سنگین سیاسی بحران اور پرتشدد انتخابات کے بعد بھی اگلے ماہ ہونیوالے ایشیاء کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کو کسی دوسرے ملک منتقل کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور ایشیائی کرکٹ کونسل کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اے سی سی کے چیف ایگزیکٹو اشرف الحق نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش میں ایشیاء کپ کھیلنے کی حامی بھر لی ہے تاہم جب پی سی بی نے اس کی تردید کی تو اشرف الحق نے پیرکو یہ بیان دیا کہ ٹورنامنٹ پاکستان کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔

حال ہی میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سیاستدان عبدالقادر ملا کو 1971ء کے مشرقی پاکستان بحران کا جنگی مجرم ٹھہرا کر پھانسی لگانے کے بعد، جہاں بنگلہ دیش میں خون ریز ہنگاموں میں شدت آئی ہے، وہیں پاکستان کے ساتھ اس کی سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ان ہنگاموں میں اب تک درجنوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستانی پارلیمان کے عبدالقادر ملا کی پھانسی کی مذمت کرنے پر بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کا پاکستانی پرچم اور کرکٹ ٹیم کی وردی نذر آتش کیے جانے کے واقعات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔

حکومت پاکستان نے اب تک اس معاملے میں چپ سادھ رکھی ہے لیکن حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بنگلہ دیش بھجوانے کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسپورٹس ونگ کے مرکزی صدر افتخار الہٰی نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’پاکستان کے خلاف وہاں نفرت کا ماحول پیدا کر دیا گیا اور ان حالات میں ٹیم کو بنگلہ دیش کھیلنے نہیں جانا چاہیے،وہاں کھلاڑیوں پر حملوں کا خطرہ ہے۔‘‘ الہٰی کے بقول حکومت پاکستان پی سی بی اور آئی سی سی کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کرکٹ ٹیم کے بنگلہ دیش جا کر کھیلنے کی مخالفت ملک میں اس لیے بھی عام ہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ گزشتہ دو برس میں دو مرتبہ اپنی ٹیم پاکستان بھجوانے کے فیصلے سے روگردانی ہوچکا ہے۔ جواب میں پی سی بی نے پچھلے برس پاکستانی کرکٹرز کو بنگلہ دیش میں پرکشش ٹوئنٹی ٹوئنٹی لیگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی بھی کہتے ہیں کہ پاکستان ٹیم کو وہاں نہیں بھجوایا جانا چاہیے، ’’پاکستان میں ایک واقعہ کے بعد ٹیمیں یہاں آکر نہیں کھیل رہیں تو بنگلہ دیش میں تو اس سے بھی زیادہ سنگین واقعات ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں وہاں پاکستانی کھلاڑی دباؤ میں ہوں گے اور اگر انہیں کچھ ہو گیا تو اس کی ذمہ داری کس کے سر ہو گی؟‘‘

باسط نے پی سی بی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹورنامنٹ کسی دوسرے ملک منتقل کروانے کی کوشش کرے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف کرنل رفیع نسیم اس کو دوسری نظر سے دیکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا، ’’ اگر بنگلہ دیشی حکومت پاکستانی ٹیم کی حفاظت کی ضمانت دے تو ٹیم کو وہاں ضرور جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کرکٹ پہلے ہی تنہائی کا شکار ہے اور وہ مزید تنہائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کو ایشیاء کپ میں شرکت کی دعوت دے کر ایشیائی کرکٹ کونسل پاکستان کو پہلے ہی یہ پیغام دے چکی ہے کہ ٹورنامنٹ اس کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ اگرایسا ہو بھی گیا تو بنگلہ دیش میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے انعقاد کی ضمانت پھر بھی کوئی نہیں دے سکے گا کیونکہ چٹاگانگ میں ہوٹل کے قریب بم دھماکے کے بعد ویسٹ انڈیز انڈر نائنٹین ٹیم کا دورہ بنگلہ دیش ادھورہ چھوڑ کر جانا آئی سی سی اور مغربی ممالک کے لیے ہضم کرنا اتنا آسان نہ ہوگا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں