1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی کھیلوں پر سیاست کا راج

طارق سعید، لاہور14 جولائی 2014

کھیلوں میں سیاسی اثر و رسوخ نوّے کے عشرے میں بڑھنا شروع ہوگیا تھا مگر حالیہ برسوں میں اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دو تہائی اسپورٹس فیڈریشن کی باگ ڈور نامور سیاستدانوں، افسر شاہی یا اعلیٰ فوجی افسران کے ہاتھ میں ہے۔

تصویر: Reuters

عرصہ دراز سے سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین پاکستان کبڈی فیڈریشن، سابق وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات فٹبال، چوہدری اختر رسول ہاکی، نوریز شکور سائیکلنگ اور میاں افتخار حسین پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ میجر جنرل اکرم ساہی پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن، لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام گالف، میجرجنرل اسفند یارپٹودی پولو اور ائیر چیف مارشل طاہر رفیق پاکستان سکواش فیڈریشن کے صدر ہیں جبکہ والی بال ٹینس اور باڈی بلڈنگ فیڈریشنز ایک عرصے سے تین بیوروکریٹس چوہردی یعقوب، سید کلیم امام اور نوید اکرم چیمہ کے زیرنگیں رہی ہیں۔ سیاسی مداخلت ہی کے سبب پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن جیسی کھیلوں کی سرکردہ تنظیموں پر قبضے کی جنگ اب اعلیٰ عدالتوں تک جا پہنچی ہے، جس سے رواں ماہ گلاسگو میں شروع ہونیوالے دولت مشترکہ کھیلوں میں بھی پاکستانی شرکت مشکوک ہے۔

سابق اولمپئن طاہر زمان اس صورتحال کو افسوسناک قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ پی او اے اور پی سی بی میں ہو رہا ہے، اس سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ بڑوں کی سیاست کا نوجوان کھلاڑیوں پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔

پاکستانی کھیلوں میں جاری سیاسی محاذ آرائی کے نتیجے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے ملحقہ چھتیس اسپورٹس فیڈریشنز میں سے چودہ کے متوازی فیڈریشنز وجود میں آچکی ہیں۔ اس وقت ملک میں ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، باسکٹ بال، باکسنگ، سائیکلنگ، جمناسٹک، ٹیبل ٹینس، تائیکوانڈو، والی بال، ویٹ لفٹنگ، بیس بال، کراٹے، ووشو اور رسہ کشی کی دو دو اسپورٹس فیڈریشنز موجود ہیں۔

نامور ریسلر عمر پہلوان نے اس ضمن میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہاں وہ لوگ اسپورٹس کے عہدیدار ہیں جن کا متعلقہ کھیل سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہوتاتصویر: DW/T. Saeed

اندھیر نگری کا عالم یہ ہے کہ ملکی اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کے ایک دعویدارخواجہ فاروق سعید کو کچھ عرصہ پہلے دو ٹرم کی مدت پوری ہونے پر جمناسٹک فیڈریشن کی صدارت چھوڑنا پڑی۔ مگر موصوف نے اپنا اُلّو اس طرح سیدھا کیا کہ ان کا چھوڑا ہوا عہدہ انہی کی جورو (اہلیہ) کو مل گیا جبکہ وہ خود متوازی ووشو فیڈریشن قائم کر کے اس کے صدر بن بیٹھے۔ اس طرح جہاں ایک پھول مرجھایا وہاں دو کلیاں کھل گئیں۔

کھیلوں کی کوریج کرنے والے پاکستانی صحافی سہیل عمران کہتے ہیں کہ کوئی شخص الیکشن ہار کر بھی کھیلوں میں عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں، ’’یہ لوگ ان عہدوں کو وراثت سمجھتے ہیں۔ ہار کر عدالت جانا اور حکم امتناعی لینا معمول بن گیا ہے۔ جس سے کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہو رہی ہیں۔‘‘ سہیل کے مطابق پاکستانی کھیلوں کو سو فیصد ان سیاست دانوں نے ہی نقصان پہنچایا ہے۔

دولت مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والے نامور ریسلر عمر پہلوان نے اس ضمن میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہاں وہ لوگ اسپورٹس کے عہدیدار ہیں جن کا متعلقہ کھیل سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہوتا، ’’ہرفیڈریشن میں زیادہ تر کرپشن کا بازار گرم ہے۔ غیر ملکی دوروں میں فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کے ساتھ ان کی جیب بھی گرم کی جاتی ہے، جو ان کو عہدوں سے الگ نہیں ہونے دیتی۔ اور دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ سیاست کی وجہ سے کھیل کو نقصان ہو رہا ہے۔‘‘

ایک زمانے میں پاکستانی کھیلوں کو متوفی نورخان اور برگیڈئیر روڈم جیسے اعلیٰ پائے کے اسپورٹس منتظمین کی وجہ سے ہی عروج ملا تھا۔ اس لیےاولمپئن طاہر زمان کا خیال ہے کہ اسپورٹس فیڈریشنز کے انتظامی معاملات پھر سے ٹیکنوکریٹس کے سپرد کرنا ضروری ہیں۔ طاہر کہتے ہیں کہ متعلقہ ٹیکنو کریٹ اس کھیل میں سسٹم کا حصہ رہا ہوتا ہے، اسے ہرلحاظ سے سوجھ بوجھ ہوتی ہے، ’’برگیڈئیرعاطف کی مثال ہمارے سامنے جن کی وجہ سے ہم نے ہاکی میں اولمپکس اور عالمی کپ جیتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سیاست اور کھیل کو الگ الگ رکھنا ہوگا۔

عمر پہلوان کے بقول دنیا میں ٹیکنوکریٹس ہی اسپورٹس فیڈریشنز چلاتے ہیں۔ قاذقستان اور ازبکستان میں کھیلوں کے فنڈز پاکستان سے کم ہیں مگر ان کے کھلاڑی اولمپکس جیت رہے ہیں کیونکہ وہاں کھیل کو چلانے والے متعلقہ افراد ہیں۔

کہتے ہیں جب ٹایٹائینک ڈوب رہا تھا تو صورتحال سے لاتعلق وہاں موسیقاروں کا ایک بینڈ موسیقی بجا رہا تھا مگر پاکستانی کھیلوں کی حالت اس سے بھی بد تر ہے۔ کیا کبھی اس پرآسمان کو رحم آئے گا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں