اقتصادی تباہی کے ذمہ دار عمران خان ہیں، اسحاق ڈار
25 مئی 2019ڈی ڈبلیو: آپ پاکستانی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج پاکستانی معیشت کے استحکام میں کردار ادا کرے گا؟
اسحاق ڈار: موجودہ اقتصادی بدحالی کی وجہ پاکستانی حکومت کی ناہلی اور لاپرواہی ہے۔ حکومت نے اصل میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں نو ماہ کا وقت ضائع کیا۔ سن 2013ء میں سابق وزیراعظم نوازشریف حکومت میں آئے، تو ہم پہلے ہی اقتصادی پروگرام طے کر چکے تھے۔ کابینہ نے اسے حلف برداری کے چند ہی روز کے اندر منظور کیا اور کام شروع کر دیا گیا۔ مگر موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد علم ہی نہیں تھا کہ اسے کرنا کیا ہے۔ اس لیے اس نے وقت ضائع کیا اور مارکیٹ میں غیریقینی کی صورت حال پیدا ہوئی۔ میں عمران خان حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں قبول کردہ شرائط سے بھی مطمئن نہیں ہوں۔ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے تحت پاکستانی معیشت سست روی کا شکار ہو گی، افراط زر ہو گا اور شرح سود میں اضافہ ہو گا۔ اس پروگرام کی وجہ سے سب سے زیادہ تکلیف عام شہریوں کو ہو گی۔
’احمدی‘ مشیر کی تعیناتی، عمران خان پر تنقید
پاکستانی اقتصادیات میں بہتری ضرور مگر غربت کم نہیں ہوئی
ڈی ڈبلیو: کیا وزیراعظم عمران خان کی حکومت چیزوں کو تبدیل نہیں کر سکتی؟
اسحاق ڈار: ایسے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ہماری حکومت نے سن 2013ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک مختلف معاہدہ کیا تھا، جسے ہم نے کامیابی کے ساتھ ستمبر 2016ء میں مکمل کیا۔ پاکستانی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ آئی ایم ایف کا کوئی پیکیج اس طرح مکمل کیا گیا۔ ہم نے یقینی بنایا تھا کہ شرح نمو پر توجہ رہے اور تین سال میں پاکستانی کی شرح نمو چھ فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ یہ پچھلے پندرہ برسوں میں سب سے بلند تھی۔ ساتھ ہی ہم نے افراط زر کو 12 فیصد سے کم کر کے تین اعشاریہ چھ فیصد تک محدود کیا، جو گزشتہ چالیس برسوں کی کم ترین تھی۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے معیشت فعال ہوئی اور وہ بائیس ہزار ارب روپے سے 34 ہزار ارب روپے تک جا پہنچی۔ اس کے مقابلے میں ہمارے بعد آنے والی حکومت نے روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی، شرح سود میں اضافہ کیا اور افراط زر تین اعشاریہ چھ فیصد سے نو فیصد پر پہنچا دیا۔ ساتھ ہی عام استعمال کی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔
ڈی ڈبلیو: کیا پاکستان کو آئی ایم ایف کی مدد درکار تھی؟
اسحاق ڈار: اصل میں نئی حکومت کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی نے معیشت کو نقصان پہنچایا اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف کی مدد لینا پڑی۔ دو برس قبل پاکستان کو اس کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں سراہا جا رہا تھا۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان کچھ ہی برسوں میں جی ٹوئنٹی کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ اقتصادی تباہی اصل میں ہماری اپنی غلطی ہے اور اس کی ذمہ داری عمران خان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ڈی ڈبلیو: مگر حکم ران جماعت پی ٹی آئی الزام عائد کرتی ہے کہ انہیں یہ بحران ورثے میں ملا اور اس سے باہر نکلنے میں اسے کچھ وقت درکار ہو گا؟
اسحاق ڈار: دیکھیے ہمیں اس سلسلے میں پاکستانی معیشت سے متعلق کچھ بین الاقوامی رپورٹس کو دیکھنا چاہیے۔ خاص طور پر ان رپورٹس کو جو فقط ایک برس سے سامنے آ رہی تھیں۔ معیشت کی تعمیر میں بے حد وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، مگر نااہل کے ہاتھوں اس کی تباہی نہایت خراب پالیسیوں کی وجہ سے قلیل وقت میں ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں عمران خان حکومت پاکستانی قوم کے خلاف ’اقتصادی دہشت گردی‘ میں مصروف ہے۔
ڈی ڈبلیو: دفاعی بجٹ کے معاملے سے آپ کیسے نمٹے؟ کچھ رپورٹس کہتی ہیں کہ پاکستان کے طاقت ور جرنیلوں نے نواز شریف سے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا اور ان کے انکار کی وجہ سے ان کی حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تھا۔
اسحاق ڈار: پاکستان ایک مشکل خطے میں ہے اور اپنی سلامتی پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ ہماری حکومت نے قومی سلامتی کو ہمیشہ ترجیح پر رکھا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے کثیر سرمایہ صرف کیا اور ہماری کوششوں کے مثبت نتائج بھی آئے۔ مگر ہم ان ضروریات سے فقط تب نمٹ سکتے ہیں اگر ہمارے پاس سرمایہ موجود بھی ہو۔ میں مالیاتی نظم کی عمل داری پر یقین رکھتا تھا اور اسے نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس پر ہم نے سمجھوتا نہیں کیا۔
ڈی ڈبلیو: مگر عمران خان اقتدار میں آئے، تو ان کی جانب سے عسکری بجٹ میں اضافے کی اطلاعات ہیں اور کچھ میڈیا رپورٹس تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ سرمایہ ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کر کے فوج کو مہیا کیا گیا۔
اسحاق ڈار: اس سوال کا جواب صرف عمران خان دے سکتے ہیں کہ عسکری بجٹ میں اضافہ کیسے ہوا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ نئی حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی۔ ہر حکومت کو ترقی اور سلامتی کو برابر ترجیح بنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ پاکستان کو ترقی درکار ہے تاکہ ترقیاتی شعبے میں سرمایہ موجود ہو۔ اس طرح ہم زیادہ افراد کو غربت سے باہر نکال سکتے ہیں اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد گزشتہ نو ماہ میں ایک ملین سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
انٹرویو: عاطف توقیر