حکومتی کوششوں کے باوجود پاکستان میں لباس تیار کرنے والی مختلف فیکٹریوں کے ملازمین کو استحصال کا سامنا ہے۔ ان ملازمین کو جنسی استحصال کے علاوہ مارپیٹ کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اشتہار
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی گارمنٹ انڈسٹری میں اصلاحات متعارف کرانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، وہ انجام کار ناکامی سے ہمکنار ہوا ہے۔ فیکٹریوں کے ملازمین کو ابھی بھی کئی اقسام کی استحصالی صورت حال کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے ان فیکٹریوں کے اندر پائی جانے والی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کارکنوں کے مطابق گارمنٹ فیکٹریوں کی اندرونی صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ ایسی چھوٹی بڑی فیکٹریاں مناسب حفاظتی اقدامات سے محروم ہیں اور کسی بڑے حادثے کی صورت میں بڑے جانی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان فیکٹریوں کے ملازمین کو کم اجرتوں کے علاوہ کئی دوسرے معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی گارمنٹ انڈسٹری کے ساتھ پندرہ لاکھ افراد وابستہ ہیں اور انہیں پریشان کن حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اپنے روزگار کے مقام پر خراب تر حالات میں کام کرتے ہیں اور اگر کوئی آواز بلند کرنے کی کوشش کرے تو اُسے ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ نوکری سے بھی فارغ کر دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی اس ذمہ داری سے چشم پوشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ کس طرح گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے کے عملی اقدامات کرے۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ادارے نے قریب ڈیڑھ سو افراد کے انٹرویوز کیے ہیں۔ ان افراد کے مطابق ان کو جبراً ابھی بھی زیادہ اوقات کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خواتین ورکرز کو جنسی استحصال کے ساتھ مارپیٹ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ان ملازمین کو کم مدتی زبانی احکامات کے تحت روزگار مہیا کیا جاتا ہے۔
گارمنٹ انڈسٹری کی دو مرکزی تنظیموں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حالات سازگار نہ ہوتے تو غیر ملکی ادارے اپنے لباس تیار کرنے کے لیے اِن فیکٹریوں سے رجوع نہ کرتے۔ ان تنظیموں کے مطابق فیکٹریوں کے ملازمین کو معیار کے مطابق اجرتیں دی جاتی ہیں۔
پاکستانی گارمنٹ انڈسٹری کو کراچی کی ایک فیکڑی میں سن 2012 میں لگنے والی آگ اور اس کی لپیٹ میں آ کر تین سو افراد کی ہلاکت کے بعد سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ اس تنظیم کے ایشین ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے عام کی ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن: پندرہ پاکستانی، پندرہ کہانیاں
پاکستان میں کروڑوں انسان ایسے ہیں، جنہیں پیٹ کی بھوک کے خلاف ہر روز ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ محرومی کی زندگی گزارنے والے یہ وہ انسان ہیں، جنہیں اس شکایت کا موقع بھی کم ہی ملتا ہے: ’ہیں تلخ بہت بندہٴ مزدور کے اوقات‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تیری دنیا کے یہ بندے کدھر جائیں؟
دھوپ میں سڑک پر اس تین پہیوں والی ریڑھی کو کھینچنے والے غلام مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوم مئی منانے کا فائدہ؟ ہم غریبوں کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ نہ محرومی کم ہوئی اور نہ زندگی آسان۔ میں پینتیس برسوں سے یہی کرتا آ رہا ہوں۔ اب میرے بچے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ بس وقت کا پہیہ گھومتا جاتا ہے۔ ہم مزوری نہ کریں، تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
پسینے میں گم ہو جانے والے آنسو
مظفر گڑھ کا ساجد حسن آٹھ برسوں سے مال بردار گاڑیوں پر سامان رکھتا اور اتارتا ہے۔ پرائمری پاس ساجد کو والد نے اسکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا:’’میرے والد کے تین شادیوں سے بائیس بچے پیدا ہوئے۔ اب میرا والد فوت ہو چکا ہے اور گھر مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ مزدور کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہے۔ مالک کام کے پیسے یوں دیتا ہے، جیسے احسان کر رہا ہو۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے ساجد کے آنسو اس کے چہرے پر پسینے میں گم ہو گئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
کام نہ ملنے کا مطلب فاقہ
فیاض علی آٹھویں پاس ہے، غربت نے اسکول چھڑوایا اور اب نتیجہ چار پانچ سو روز کی دیہاڑی ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شدید گرمی میں مشقت سے کبھی کبھی طبیعت خراب بھی ہو جاتی ہے:’’جس شام پکانے کو کچھ گھر نہ لے جا سکوں، اس شام ہم فاقہ کرتے ہیں۔ دوسروں کے بچے تو اچھے اسکولوں میں جاتے ہیں اور ہمارے جیسے سڑکوں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس نا انصافی کا ذمے دار میں خود تو نہیں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ہاتھوں کے چھالے اور ورم
پروین اختر پچھلے تیس سال سے مختلف لوگوں کے گھروں میں کام کر کے روزانہ دو تین سو روپے کما لیتی ہے اور کبھی ساتھ میں کھانا بھی مل جاتا ہے۔ پروین نے بتایا کہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہے اور آئے دن مار پیٹ کرتا ہے۔ اس کی چار بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، دو ابھی باقی ہیں۔ پروین نے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس ملک میں غریب کو یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ وہ زندہ ہے تو کیسے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
دوسرے شہر میں مزدوری
محمد جمیل ضلع مظفر گڑھ سے راولپنڈی اسلام آباد اس لیے آیا کہ اپنے قصبے میں اسے مزدوری بھی نہیں ملتی تھی۔ ہر موسم میں مزدوری کا کام کرنے والا جمیل آٹھ تا دس ہزار روپے ماہانہ تک کما لیتا ہے۔ اس کے تمام آٹھ بہن بھائی شادی شدہ ہیں اور اس کے اپنے بھی دو بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، ’’افسوس اس بات کا ہے کہ والدین غریب تھے اور میں کم عمری میں محنت مزدوری پر مجبور ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں مالی کا کام
اللہ نور نامی یہ شہری چالیس سال پہلے بنوں سے مزدوری کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔ اسے ایسا اپنے والد کے انتقال کے باعث کرنا پڑا۔ پشاور موڑ کے قریب پانچ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر رہنے والا اللہ نور عام لوگوں کے گھروں میں باغیچوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کر کے ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے کما لیتا ہے، جس کا ایک حصہ اسے ہر ماہ اپنے آبائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بوٹ پالش سے بچوں کی تعلیم
پنڈی بھٹیاں کےعاشق علی کے باپ دادا بھی موچی تھے اور اب راولپنڈی میں مقیم عاشق اسلام آباد میں ایک درخت کے نیچے پوٹ پالش اور جوتے مرمت کرتا ہے:’’میں روزانہ تین چار سو روپے کما لیتا ہوں۔ ہے۔ اپنے پانچوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح تعلیم بھی دلوا رہا ہوں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی اچھی نوکری کر سکیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ میری بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں جا کر کام نہ کرے تو ہمارا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کوڑے میں سے کاغذ، گتے کے ذریعے رزق
گل بی بی سارا دن پرانا کاغذ اور کوڑے میں سے ایسی چیزیں ڈھونڈتی ہے، جنہیں بیچ کر وہ اپنی زندگی کی گاڑی چلا سکے۔ اس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے نو بچے ہیں اور بیمار شوہر بوڑھا ہو چکا ہے۔ وہ روز چھ سات سو روپے تک کما لیتی ہے:’’میری ساری عمر سڑکوں پر کوڑا چنتے اور مزدوری کرتے گزری ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا ہمارے جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام صرف پیسوں والے کر سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
نوکری نہ ملی تو سٹال لگا لیا
ایف اے پاس نوجوان فیاض حسین آٹھ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ مسلسل بے روزگاری کے بعد اس نے اپنے فلیٹ ہی کے سامنے ایک دیوار کے ساتھ ایک سٹال لگا لیا۔ ’’میں روزانہ ٹافیاں، گولیاں، بسکٹ بیچ کر تین سے پانچ سو روپے تک کما لیتا ہوں لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ یہ کمائی دال روٹی کے لیے بھی مشکل ہی سے کافی ہوتی ہے۔ میں ابھی تک اپنے گھر والوں کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر تیرہ سال، کام کا تجربہ چار سال
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ اعجازالحق پچھلے چار سال سے ایک پرائیویٹ اسکول اور چند گھروں میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں، جو سب اس سے چھوٹے ہیں۔ اعجاز کو خود بھی پڑھائی کا بڑا شوق ہے اور اسے یونیفارم پہن کر اسکول جاتے بچے اچھے لگتے ہیں۔ ’’میرے والدین کہتے ہیں کہ تم کام نہیں چھوڑ سکتے۔ مزدوری نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
سڑک کے کنارے حجام
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے اور ایک درخت کے نیچے حجام کے طور پر اپنی چلتی پھرتی دکان چلانے والے ناصر کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ اس کا پورا خاندان راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار میں رہتا ہے۔ ناصر نے بتایا کہ وہ روزانہ پانچ چھ سو روپے تک کما لیتا ہے۔ ’’میرا خواب ہے کہ میری اپنی ہیئر ڈریسر کی ایک بڑی سی دکان ہو۔ اس کے لیے لاکھوں روپے ہونے چاہیئں۔ غریبوں کے تو خواب بھی ادھورے ہی رہ جاتے پیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل پاس ویٹر
مانسہرہ سے پاکستانی دارالحکومت میں آنے والا چوبیس سالہ اجمل پچھلے آٹھ سال سے ایک ریستوران پر ویٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے اور آجر کی طرف سے رہائش اور کھانا پینا بھی مفت ہے۔ وہ اپنے ساری کمائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا ہے۔ ’’مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مجھے اپنی پڑھائی نامکمل ہی چھوڑ دینا پڑی۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
آٹھ بچوں کی بیوہ ماں
پشاور سے آنے والی زریں گل آٹھ بچوں کی ماں ہے اور بیوہ ہے۔ وہ سات سال سے اسلام آباد کے علاقے جی الیون میں رہتی ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں۔ بیٹے بھی مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، کوئی ردی بیچتا ہے۔ زریں گل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’سارے دن کی محنت کے بعد بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ لوگ آتے ہیں، تصویریں بناتے ہیں۔ کوئی ہماری مجبوریاں نہیں سمجھتا۔ غربت تو تماشہ ہے امیروں کے لیے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
باجوڑ کا قلفی فروش
احمد خان کا تعلق باجوڑ کے قبائلی علاقے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہتا ہے۔ وہ چھ سال سے قلفیاں بیچ رہا ہے۔ پرائمری پاس احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے اور کام کاج کوئی نہیں۔ اسی لیے ہم محنت مزدوری کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ میرے کچھ دوست اسلام آباد آ رہے تھے تو میں بھی ساتھ آ گیا۔ اب میں باقاعدگی سے پیسے گھر بھیجتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کام کیا لیکن تنخواہ نہیں ملی
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں ملازم زلیخا مسیح نے، جو کڑی دھوپ میں کچھ دیر سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی، بتایا کہ اس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے، جو رو رو کر ملتی ہے:’’پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ پہلے میں گھروں میں کام کر کے بھی کچھ پیسے کما لیتی تھی۔ اب بیمار رہتی ہوں تو مجھ سے زیادہ کام بھی نہیں ہوتا۔ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کھائیں کیا اور زندہ کیسے رہیں۔‘‘