1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی گھریلو خواتین کے ’مائی ڈیلی روٹین‘ وی لاگز

20 اپریل 2022

پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود گھریلو خواتین اپنے یوٹیوب چینل چلا رہی ہیں۔ کچھ کے ساتھ تو ان کے گھر والے بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دور کہیں روشن خیالی والی تبدیلی آ چکی ہے۔

تصویر: privat

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد اکہتر لاکھ سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ ان میں اکثریت ہماری جیسی ہے جو سوشل میڈیا کا استعمال دوسروں کی زندگیوں میں باقی بچی رونقوں میں اضافہ کرنے یا انہیں بھی چھین لینے کے لیے کرتی ہے۔

تاہم، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان پلیٹ فارمز پر اپنی موجودگی کو پیسے کمانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ خود کو وی لاگرز کہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو آپ فالو بھی کرتے ہوں گے۔ انہیں چھینک بھی آئے تو بیس منٹ طویل وی لاگ بنا لیتے ہیں۔ 

ان کے خاندان کا ہر فرد وی لاگ بناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے گھر کے ہر کونے میں کیمرے لگے ہوئے ہیں جو ہر وقت ان کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے رہتے ہیں۔ پتہ ہوگا کہ گھر والے کسی وی لاگ کی ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔ انہیں سرپرائز دیا جا رہا ہے۔ پھر بھی حیرانی کا بھرپور اظہار کریں گے۔ ہائے رے معصومیت۔

ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان سیلیبریٹی وی لاگرز کی طرح ہی اپنی روزمرہ زندگی کو وی لاگ کی شکل میں اپنے فالورز کو دکھا کر ماہانہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد گھریلو خواتین کی ہے جن کی روزانہ کی زندگی اپنے گھر اور اس میں مقیم افراد کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ انہوں نے اپنی روزانہ کی اسی زندگی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

اس سے قبل گھریلو خواتین کے لیے پیسے کمانے کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب بھی یہی صورتحال ہے۔ خواتین کو پڑھانے کا رواج تو عام ہو چکا ہے لیکن وہ پڑھائی صرف اچھے رشتے کا اہل بننے کے لیے کروائی جاتی ہے۔ اس پڑھائی کو استعمال کر کے وہ اپنا کرئیر بنا سکتی ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ ان کے ہونے والا شوہر اور اس کے گھر والے کرتے ہیں۔ 

کچھ خواتین گھر میں اتنی مصروف رہتی ہیں کہ ان کے لیے گھر سے باہر جا کر کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ بہت سی خواتین شادی کے بعد پیسے کی تنگی محسوس ہونے پر گھر بیٹھے کوئی مناسب ذریعہ معاش ڈھونڈتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اب بہت سی نوکریاں آن لائن کی جا سکتی ہیں۔ جو ان نوکریوں کو کرنے کی اہل ہوں اور اپنی گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ نوکری کر سکتی ہوں ان کے لیے یہ بہترین آپشن ہے۔

لیکن جن کے پاس ان نوکریوں کو کرنے کی اہلیت نہ ہو، یا وہ ایسی نوکریاں نہ کرنا چاہتی ہوں، وہ کیا کریں؟ 

اس کا حل کچھ گھریلو خواتین نے اپنی مصروف زندگی میں ہی ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ صبح اٹھتی ہیں۔ موبائل یا کیمرہ ٹرائی پوڈ پر لگاتی ہیں اور مختلف کام کرتے ہوئے اپنی ویڈیو ریکارڈنگ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ کام بھی نبٹ رہا ہے اور ویڈیو بھی بن رہی ہے۔ رات کو سونے سے پہلے وہ ان ریکارڈنگز کو وی لاگ کی شکل دیتی ہیں اور سوشل میڈیا پر 'مائی ڈیلی روٹین‘ کے عنوان کے ساتھ شئیر کر دیتی ہیں۔ 

ہمیں بطور قوم ویسے ہی دوسروں کی ذاتی زندگی میں گھسنے کا بہت شوق ہے۔ یہاں وہ خود ہمیں اپنے گھر میں جھانکنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ ہم شوق سے ان کے چینل دیکھتے ہیں۔ جسے پسند آئے تعریف کر دیتا ہے۔ جسے کوئی چیز بری لگے وہ جل بھن جاتا ہے۔

ایک خاتون نوش 'کچن روٹین‘کے نام سے اپنا یو ٹیوب چینل چلاتی ہیں۔ ان کا چینل مجھے بہت پسند ہے۔ وہ اپنے دو بیٹوں اور شوہر کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں رہتی ہیں۔ انہوں نے سالوں پہلے اپنا چینل بس ایسے ہی شروع کیا تھا۔ روز وہ اپنے کچن میں اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نت نئے کھانے بناتی تھیں اور پورے عمل کو ریکارڈ کر لیتی تھی۔ رات کو اس ویڈیو کو وائس اوور کے ساتھ اپنے چینل پر اپلوڈ کر دیتی تھیں۔ 

یوٹیوب صارفین کو ان کی ویڈیوز پسند آئیں۔ آج ان کے ساڑھے چار لاکھ سے زیاہ سبسکرائبرز ہیں۔ اپنے چینل سے ان کی آمدن کچھ اس قدر ہو رہی ہے کہ ان کے شوہر نے متحدہ عرب امارات آنے کا فیصلہ کیا تو انہیں نوکری ملنے تک گھر کے اخراجات انہوں نے اپنی یوٹیوب کی آمدن سے ہی پورے کیے۔ 

ان کی طرح پاکستان سے باہر مقیم بہت سی گھریلو پاکستانی خواتین اپنے اپنے یوٹیوب چینل چلا رہی ہیں۔ کچھ کیمرے کے سامنے آتی ہیں، کچھ نہیں آتیں۔ ان کے چینل پر بس کام کرتے ہوئے ان کے ہاتھ نظر آتے ہیں۔ لوگ ان کی ویڈیوز بھی بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ 

ان کی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود گھریلو خواتین بھی اپنے اپنے یوٹیوب چینل چلا رہی ہیں۔ کچھ کے ساتھ تو ان کے گھر والے بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دور کہیں تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ والی تبدیلی نہیں، روشن خیالی والی تبدیلی جس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں