جرمنی میں ہم جنس پرست مہاجرین سے ’بد سلوکی اور نفرت‘ کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے مہاجرین کی معاونت کرنے والے ایک ادارے کے مطابق سب سے زیادہ مشکلات کا شکار پاکستانی ہم جنس پرست تارکین وطن ہیں۔
اشتہار
'رین بو ریفیوجیز‘ ایک ایسا ادارہ ہے جو ’ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کو مختلف مرحلوں پر معاونت فراہم کرتا ہے۔ ایل جی بی ٹی سے مراد مختلف جنسی میلانات و رحجانات رکھنے والے افراد ہیں، جن میں خواتین ہم جنس پرست، مرد ہم جنس پرست، بائی سیکشوئل اور ٹرانسجینڈر یعنی مخنّث افراد بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب یہ ادارہ ایسے پناہ گزینوں کو اُن کی پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کے دوران مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کا قیام سن 2015 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ رین بو ریفیوجیز کے بورڈ ممبر کنوڈ ویشٹر شٹائن سے ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے کہ جرمنی میں ہم جنس پرست مہاجرین کو کن مسائل کا سامنا ہے ایک انٹرویو کیا۔
ڈی ڈبلیو: جرمنی نے حال ہی میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دی ہے۔ اس اقدام سے ہم جنس پرست مہاجرین کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟
کنوڈ ویشٹر شٹائن: اس اقدام سے ایسے مہاجرین کو کوئی فائدہ پہنچتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جرمن حکومت ہم جنس پرست اور مخنث تارکین وطن کو پناہ نہیں دیتی۔ حالانکہ انہوں نے اپنے ملکوں کو صرف اس لیے چھوڑا کیونکہ وہاں اُن پر ظلم ہوتا تھا۔ ہمیں اس مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈی ڈبلیو: ’ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کو جرمنی میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
کنوڈ ویشٹر شٹائن: جرمنی آنے والے ہم جنس پرست مہاجرین کو یہاں بھی کم و بیش ویسی ہی نفرت آمیز فضا کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُن کے اپنے ممالک میں تھی۔ انہیں شیلٹرز میں دوسرے مہاجرین کی جانب سے زبانی بد سلوکی اور تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں باقی مہاجرین خود سے گھلنے ملنے نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرست افراد کی پناہ کی درخواستیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے ملکوں میں اُن پر مظالم کیے جاتے ہیں، مسترد کر دی جاتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو: سب سے زیادہ کن ملکوں کے ہم پرست مہاجرین کو ایسے مسائل کا سامنا ہے؟
کنوڈ ویشٹر شٹائن: پاکستانی ہم جنس پرست مرد اور مخنث مہاجرین کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی قانوناﹰ منع ہے اور اس کی سزا کم سے کم دس برس سزائے قید ہے۔ پاکستان میں بہت سے ہم جنس پرست افراد کے گھر والوں نے بھی ان سے رشتہ ختم کر لیا ہے جبکہ اُنہیں معاشرتی سطح پر تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
تاہم مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے وفاقی جرمن ادارے’بی اے ایم ایف’ کو اصولاﹰ پاکستانی مہاجرین کی درخواست کو مسترد کرنا پڑتا ہے چاہے وہ اپنے ہم جنس پرست ہونے اور ملک چھوڑنے کی وجہ ہم جنس پرستی ہونے کا ثبوت ہی کیوں نہ فراہم کر دیں۔
اس کے علاوہ تیونس، الجزائر، اور مراکش سے آنے والے ہم جنس پرست تارکین وطن بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان ممالک کو محفوظ سمجھا جاتا ہے تاہم وہاں ہم جنس پرستوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
رین بو ریفیوجیز کے کنوڈ ویشٹر شٹائن کا کہنا ہےکہ اُن کی تنظیم مختلف جنسی میلانات و رحجانات رکھنے والے ’ ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کے ساتھ اکثر و بیشتر کام کرنے والے سماجی کارکنوں اور رضاکاروں کو تربیت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
یونان کے پٹرول پمپ مہاجر کیمپ میں تبدیل
مقدونیا نے مہاجرین سے متعلق اپنی نئی پالیسی کے تحت سیاسی پناہ کی درخواستیں لینے کا عمل سست کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے یونان میں مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اس ملک کے پٹرول پمپ عارضی مہاجر کیمپ بن گئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سنہرے کی بجائے سرمئی ’کمبل‘
سنہرے رنگ کے کمبل پناہ گزینوں کی ایک طرح سے پہچان بن گئے تھے تاہم اب اقوام متحدہ کی جانب سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے سرمئی رنگ کے کمبل دیے جا رہے ہیں۔ ابھی ہفتے کے روز ہی چار ہزار کے قریب مہاجرین یونان میں داخل ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اور سفر رک گیا
بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کی وجہ سے مقدونیا نے سیاسی پناہ کی درخواستیں قبول کرنے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس پالیسی کے تحت سرکاری حکام مطلع کیے بغیر سرحدیں کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے لوگوں کو اکثر بارہ سے چوبیس گھنٹے سرحدوں پر بنائے جانے والے پٹرول پمپوں پر گزارنا پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی ردعمل
تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ’ایم ایس ایف‘ ایکو نامی پٹرول پمپ پر جمع ہونے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ یہ پٹرول پمپ مقدونیا کی سرحد سے بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ایم ایس ایف ان افراد میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہے جبکہ انہیں طبی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرد موسم اور طویل انتظار
شدید ٹریفک کی وجہ سے کبھی کبھی مہاجرین کو چوبیس گھنٹوں سے زائد پٹرول پمپس پر گزارنے پڑتے ہیں۔ ایم ایس ایف کے مطابق شدید سردی سے بچنے کے لیے متعدد پناہ گزینوں کو بند بسوں کے نیچے ان حصوں میں راتیں بسر کرنا پڑ رہی ہیں، جو سامان کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ ’’بس ڈرائیور اکثر پناہ گزینوں کو راتوں میں تنہا چھوڑ کر قریبی ہوٹلوں میں سونے چلے جاتے ہیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پندرہ روزہ بچہ اور منفی آٹھ درجہ حرارت
یورپ کی جانب سفر کرنے والوں میں بڑی تعداد ان ماؤں کی بھی ہے، جن کے ساتھ ان کے نومولود بچے بھی ہیں۔ ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق یونانی گاؤں ایڈومینے کے قریب پندرہ روز قبل پیدا ہونے والے ایک بچے کو منفی آٹھ درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے رات بسر کرنا پڑی۔ اس تنظیم کی سیلین گیگنے کے مطابق ایڈومینے میں ایسے ٹینٹ موجود تھے، جہاں سردی سے بچنے کا انتظام تھا ’ لیکن ان لوگوں کو وہاں رکنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
برداشت سے باہر
یہ تصویر عراقی مسیحی نوجوان ڈینیئل اسدزادے اور اس کے دوستوں کی ہے۔ اسد زادے کے بقول’’ یہ لوگ صبح پانچ بجے اس پٹرول پمپ پر پہنچے تھے اور اس سے قبل کی رات وہ کسی اور پٹرول پمپ پر گزار کر آئے تھے۔‘‘ وہ کہتے ہیں:’’میں اب ایسا مزید نہیں کر سکتا۔ جرمنی پہنچ کر سب سے پہلے میں غسل کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحد پر عبادت
اسد زادے کے مطابق اس نے مقدونیا کے لیے بس والے کو تقریباً 42 یورو ادا کیے۔ اس کے بقول وہ لگ بھگ چار ہزار یورو دے کر یونان پہنچا ہے:’’اب میرے پاس بہت کم رقم بچی ہے۔ میں تنہا ہی اس صورتحال کا شکار نہیں ہوں بلکہ اور بھی خاندان ہیں، جو بغیر پیسوں کے سفر کر رہے ہیں۔ ہمیں مخصوص پٹرول پمپوں پر روکا جاتا ہے، جہاں سے ہمیں لازمی طور پر چیزیں خریدنی ہوتی ہیں۔ اب ہمیں سرحد پر ہی عبادت کرنی پڑ رہی ہے۔ ‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
چیزیں خریدو گے تو پناہ ملے گی
یہ ایک افغان شہری ہے، جس کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ اسے پٹرول پمپ سے باہر نکلنے کے لیے کہا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ پٹرول پمپوں سے چیزیں خریدتے ہیں انہیں اُس جگہ انتظار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، جہاں کھانا کھایا جاتا ہے۔ پٹرول پمپ کے مالک کے مطابق ’’پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ لوگ چیزوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
آگ کے لیے گیارہ ٹن لکڑی
یونانی امدادی کارکن گے اورگ اور سمانتھا پاپاس ڈاکٹروز ود آؤٹ بارڈرز کی امداد کو استعمال کرتے ہوئے اُن علاقوں میں جلانے کے لیے لکڑی مہیا کر رہے ہیں، جہاں پناہ گزین موجود ہیں۔ یہ ایکو کے پٹرول پمپ کے باہر کی تصویر ہے۔ اتوار کے روز یہاں لکڑیوں کی تیسری اور آخری کھیپ پہنچائی گئی۔ سمانتھا کے مطابق ایک ٹرک پر لدی گیارہ ٹن لکڑی کی قمیت تقریباً ایک ہزار یورو ہوتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود وسائل
ایڈومینے نامی علاقے میں قائم ایکو پٹرول پمپ پر اتوار کے روز دو ہزار سے زائد افراد نے رات بسر کی۔ سیو دی چلڈرن کی سیلین گیگنے کہتی ہیں کہ یونان میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یہ ایک عام سی بات بنتی جا رہی ہے ۔’’میں اور میرا عملہ ان لوگوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔‘‘