1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر قرض کا خواہاں

23 فروری 2024

پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ سے کم از کم چھ بلین ڈالر قرض حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ نئی حکومت اس سال واجب الادا اربوں ڈالر کے قرضے ادا کرسکے۔ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے
عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہےتصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

بلوم برگ نیوز نے ایک پاکستانی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان قرض دہندہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ توسیعی فنڈ کی سہولت پر بات چیت کرے گا تاکہ وہ کم از کم چھ ملین ڈالر بطور قرض حاصل کرسکے۔ یہ بات چیت مارچ یا اپریل میں شروع ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف سے مختصر مدت کے بیل آؤٹ پیکج کے بدولت ڈیفالٹ سے نکل گیا تھا، تاہم یہ پروگرام اگلے ماہ ختم ہو جائے گا اور نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر کی معیشت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی انتظامات پر بات چیت کرنا ہو گی۔

نئی حکومت اور معاشی چیلنجیز: 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ کیسے اُترے گا؟

بیل آؤٹ سے قبل پاکستان کو آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے پڑے تھے، جن میں بجٹ پر نظر ثانی، سود کی شرحوں میں اضافہ اور بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھے۔

آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے حکام پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ طویل مدتی اصلاحات کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نئی حکومت پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل کے سلسلے میں نئے طریقہ کار پیش کرکے قرض کے لیے درخواست کرتی ہے تواس کے لیے فنڈ دستیاب ہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر خزانہ نے بلوم برگ کی رپورٹ پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کے لیے درخواست کا فوری طورپر جواب نہیں دیا۔

کیا پاکستان نے آئی ایم ایف ڈیل کے لیے یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے؟

اس دوران فچ نامی ریٹنگ ایجنسی نے کہا ہے کہ نئی حکومت کو کئی اہم مسائل کا سامنا کرنا ہوگا جن میں پاکستان کو فوری طور پر مختلف بین الاقوامی شراکت داروں سے رقم حاصل کرنا اہم مسئلہ ہے کیونکہ ملک کی مالی صورتحال پہلے ہی کمزور ہے۔

پاکستان کو آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے پڑے جن میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھا تصویر: ASIF HASSAN/AFP

 نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں، آئی ایم ایف

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونی کیشنز جولی کوزیک نے نیویارک میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کی منتظر ہیں۔

پاکستان کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے متعلق تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے الزامات اور ملک کے لیے کوئی نیا قرض منظور کرنے سے قبل انتخابات کے آزادانہ آڈٹ کرانے کے ممکنہ مطالبے کے پس منظر میں ایک سوال کے جواب میں جولی کوزیک نے کہا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی منتظر ہیں اور پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ نہیں کرسکتیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستانی معاہدہ: پہلا جائزہ دو نومبر کو

انہوں نے کہا،''ہم نئی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے معاشی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کی پالیسیو ں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ اور میں موجودہ سیاسی پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گی۔‘‘

جب ایک صحافی نے عمران خان کے ممکنہ خط کے بارے میں دوبارہ اصرار کیا تو جولی کوزیک کا کہنا تھا،''میں پاکستان میں جاری سیاسی پیش رفت پر تبصرہ نہیں کروں گی، لہذا میں نے جو کچھ کہا اس میں شامل کرنے کے لیے میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔‘‘

جولی کوزیک کا کہنا تھا، ''نگراں حکومت کے دورمیں پاکستانی حکام نے معاشی استحکام کو برقرار رکھا۔ایسا مالیاتی اہداف پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے ذریعہ کیا گیا۔‘‘

آئی ایم ایف کے وفد کی عمران خان سے ملاقات: خوشی بھی، تنقید بھی

خیال رہے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر علی ظفر نے جمعرات کو انکشاف کیا تھا کہ بانی چیئرمین عمران خان آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جس میں اس پر زور دیا جائے گا کہ وہ اسلام آباد سے مالی امور بات چیت جاری رکھنے سے پہلے 8 فروری کے عام انتخابات کے آزادانہ آڈٹ کا مطالبہ کرے۔

پاکستانی انتخابات: ووٹ، توانائی اور آئی ایم ایف

14:06

This browser does not support the video element.

 ج ا/ ک م (خبر رساں ادارے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں