1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ارکان پارلیمان کا بیرون ملک مہنگا علاج

تنویر شہزاد، لاہور29 اگست 2013

جمعرات کے روز پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایسے ارکان کی فہرست پیش گئی جنہوں نے حالیہ برسوں میں سرکاری خرچ پر بیرون ملک اپنا علاج کروایا ہے۔ مجموعی طور پر اس طرح کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس فہرست میں مسلم لیگ نون کے مشاہداللہ، پیپلز پارٹی کے مخدوم شہاب الدین، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل اور اسی جماعت کے الیاس بلور کے علاوہ سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی، سینیٹر صلاح الدین ڈوگر اور شہناز شیخ سمیت متعدد ارکان پارلیمنٹ کے نام شامل ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے مظفرگڑھ سے منتخب ہونے والے جمشید دستی نے بتایا کہ یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ اقتصادی بدحالی کے شکار ایک غریب ملک کے ارکان پارلیمنٹ بھاری سرکاری رقوم کے ساتھ بیرون ملک علاج کراتے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سہولت حاصل کرنے والے مالی طور پر مضبوط افراد ہیں اور بیرون ملک علاج سے پہلے ان کی بیماریوں کی مناسب تحقیق بھی نہیں کی جاتی۔

جمشید دستی کے بقول جس شخص کو بیرون ملک سرکاری علاج کی مفت سہولت میسر ہوگی اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہسپتالوں کی حالت درست کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے بقول جتنا پیسہ ان چند افراد کے علاج پر لگایا گیا تھا اس سے ملک میں بہت سے غریب لوگوں کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری علاج کروانے والے ارکان اسمبلی کے کیسز کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بننا چاہیے اور غیر مستحق افراد سے سرکاری رقوم واپس لی جانی چاہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض ارکان اسمبلی مہنگی ادویات حاصل کرکے باہر بیچ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان کو بھی پچھلے دور حکومت میں اس ’سہولت‘ سے مستفید ہونے کی پیشکش ہوئی تھی۔

تصویر: AFP/Getty Images

سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی جن کے برطانیہ میں علاج پر چھیالیس لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوئی، انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان پر قاتلانہ حملے کے بعد ان کی پنڈلی کے زخم کا پاکستان میں علاج نہیں ہو سکتا تھا اور ان کی طرف سے درخواست دیے بغیر ہی حکومت پاکستان نے بیرون ملک علاج کے انتظامات کیے تھے۔ انہوں نے عام ارکان پارلیمنٹ کے برعکس برطانیہ کے ایک عام ہسپتال سے علاج کروایا اور یہ رقم لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ہسپتال کو ادا کی۔

تفصیلات کے مطابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات مشاہداللہ خان کے برطانیہ میں علاج کے لیے بھی 51 ہزار پونڈز خرچ کیے گئے۔ مشاہد اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چند سال پہلے وہ کینسر کے علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے۔ حکومت نے اس علاج کا صرف ایک تہائی حصہ ادا کیا، سفر، رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات بھی وہ خود ہی برداشت کرتے رہے۔

ناقدین کے مطابق کئی بیماریوں کا علاج پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سستے داموں ممکن ہے لیکن اس کے با وجود ارکان پارلیمنٹ مغربی ملکوں میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم شہاب الدین نے ڈی ڈبلیو کا سوال خندہ پیشانی سے سنا اور چند منٹ بعد فون کرنے کا کہہ کر اپنا فون بند کر دیا۔ ان کا موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کی جانب سے گھنٹوں تک کی جانے والی کوششیں ناکام ہی رہیں۔

لاہور میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک رہنما ڈاکٹر عامر بندیشہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہسپتالوں میں غریب مریضوں کے لیے دوائیاں دستیاب نہیں ہیں، بعض علاقوں میں تو جان بچانے والی ادویات بھی نہیں ہیں لیکن ارکان پارلیمان، جج صاحبان، اور اعلیٰ افسروں کے لیے ادویات مارکیٹ سے خرید کر ان کے گھروں میں پہنچائی جا رہی ہیں۔ اس کام کے لیے الگ سرکاری بجٹ سنبھال کر رکھا جاتا ہے اور یہ صورتحال وہ روز دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان جیسے لوگوں کو بیرون ملک چیک اپ کے لیے نہیں جانا چاہیے بلکہ انہیں مقامی ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنی چاہیے۔

مبصرین کے مطابق یوں تو ہر رکن پارلیمان کے پاس اپنے اپنے حق میں دلائل موجود ہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ پاکستان کے کسی عام آدمی کا علاج اگر پاکستان میں ممکن نہ ہو تو وہ بے چارہ کیا کرے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں