1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان افغانستان اختلافات: بھارت کا افغان کی تجارت پر قبضہ

21 دسمبر 2025

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بحران اور سرحد کی بندش علاقائی تجارت کو ایک نئی شکل دے رہی ہے۔ بھارت تنازعے کا فائدہ اٹھا کر کابل کے ساتھ اقتصادی اور اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔

Indien Neu-Delhi 2025 | Indischer Außenminister übergibt symbolischen Schlüssel an afghanischen Amtskollegen
تصویر: S. Jaishankar/AP Photo/picture alliance

حالیہ مہینوں میں سرحد پار سے ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات تاریخی پستی پر پہنچ چکے ہیں۔ ان تصادم میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اس کے بعد سے طورخم اور چمن جیسے اہم تجارتی راستے بند ہیں، جس نے تجارت کو مفلوج کر دیا ہے، قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور خلیج کو گہرا کر دیا ہے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدی گزرگاہوں کی بندش نے بھی علاقائی تجارت میں ایک اہم تبدیلی کو جنم دیا ہے، جس سے بنیادی طور پر بھارت فائدہ اٹھانے والا ملک بن کر ابھرا ہے۔

سرحدی بحران نے علاقائی تجارت کو نئی شکل دی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کے باعث دونوں پڑوسیوں کے درمیان تجارت تقریباً نصف تک گر گئی ہے۔

دونوں ممالک کی متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق، مالی سال 2024-25 میں دو طرفہ تجارت میں 25 فیصد اضافہ ہوا، جو تقریباً دو بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔

لیکن افغانستان کے چیمبر آف کامرس کے بورڈ ممبر خان جان الکوزے کے مطابق سرحد کی بندش اور فوجی کشیدگی کے باعث، یہ تقریباً ایک بلین ڈالر تک گر گیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے مطابق، ایک ایسے ملک کے لیے یہ بہت زیادہ نقصان دہ ہے جس کی برآمدات 992 ملین تک ہے، اور جس کی درآمدات 2022 میں کل 5.76 بلین ڈالر تھیں۔

افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی طرف

پاکستان اور افغانستان کے اس اہم تجارتی تعلقات میں شدید خلل پڑنے کے ساتھ، افغان طالبان فعال طور پر متبادل تجارتی راستوں کی تلاش میں ہیں اور نئی دہلی نے اس کے لیے خود کو حل کے طور پر پیش کیا ہے۔

افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے حال ہی میں نئی ​​دہلی کا سفر کیا اور بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کی، تاکہ توسیع شدہ اقتصادی تعلقات پر بات چیت کی جاسکےتصویر: @DrSJaishankar X/ANI

افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے حال ہی میں نئی ​​دہلی کا سفر کیا تھا تاکہ توسیع شدہ اقتصادی تعلقات پر بات چیت کی جاسکے۔ اس میں دہلی، امرتسر اور ممبئی جیسے بھارتی شہروں سے کابل کے لیے کارگو پروازوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔ دونوں فریقوں نے دو طرفہ تجارت کی نگرانی اور سہولت کے لیے اپنے اپنے سفارت خانوں میں تجارتی اتاشی بھی مقرر کیے ہیں۔

بات چیت میں ٹیرف میں کمی، ٹیکس میں چھوٹ اور ایک بلین ڈالر کے ایسے دو طرفہ تجارتی ہدف پر توجہ مرکوز کی گئی، جو پاکستانی بندرگاہوں اور سرحدی گزرگاہوں سے دور اپنے تجارتی تعلقات کو بنیادی طور پر از سر نو تشکیل دینے کے افغانستان کے ارادے کا اشارہ ہے۔

چابہار: بھارت کا اسٹریٹجک گیٹ وے

بھارت کے نقطہ نظر کا مرکز ایران میں چابہار بندرگاہ ہے، جو خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کو بغیر پاکستانی سرزمین کو عبور کیے بین الاقوامی پانیوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔

بھارت اس بندرگاہ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، جو ایک اہم سمندری راستہ ہے اور یہ پاکستان کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہ افغانستان کے لیے ضروری درآمدات میں بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔

جب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں، افغان تاجر خوراک، اشیاء، تعمیراتی سامان اور اشیائے ضروریہ، جو پہلے پاکستان کے راستے آتے تھے، درآمد کرنے کے لیے بندرگاہ کو استعمال کرنے کے لیے منتقل ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق سفیر اجے بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب تک ناکہ بندی جاری ہے، بھارت کو چابہار بندرگاہ کی اپ گریڈیشن کو ترجیح دینی چاہیے، جس میں کنٹینر ہینڈلنگ، اسٹوریج اور چابہار-زاہدان ریل، خشک بندرگاہوں اور تیز تر کسٹمز کا احاطہ کرنے والے اندرونی رابطے شامل ہیں۔"

بھارت کے نقطہ نظر کا مرکز ایران میں چابہار بندرگاہ ہے، جسے بنا رہا ہے اور یہ خشکی سے گھرے افغانستان کو بغیر پاکستانی سرزمین کو عبور کیے بین الاقوامی پانیوں تک رسائی فراہم کرتی ہےتصویر: Iranian Presidency/ZUMA/picture alliance

چابہار پر آپریشنز کے لیے امریکہ نے اپنی پابندیوں میں رعایت کی ہے، جو ایک ایسی بڑی رکاوٹ کو دور کرتا ہے جس نے پہلے بندرگاہ کی تجارتی عملداری کو محدود کر دیا تھا۔

بساریہ نے  مزید کہا، "بھارت کو چابہار پر امریکی پابندیوں کی چھوٹ کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ پاکستان کے سستے راستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے رفتار اور قابل اعتماد فوائد پیش کیے جا سکیں۔ بھارت کی سبسڈی، ڈیجیٹل کلیئرنس، لاجسٹک انضمام کے فعال اقدامات سے مسابقت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔" 

افغانستان کے لیے بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیا نے بھی کہا کہ پاکستانی ناکہ بندی چاہے کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، موجودہ افغانستان بھارت کو ایک اسٹریٹجک موقع فراہم کرتا ہے۔

مکھوپادھیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر چابہار بندرگاہ کے ذریعے متبادل راستوں کو معمول پر لایا جا سکتا ہے اور تجارتی لحاظ سے قابل عمل بنایا جا سکتا ہے، تو وہ پاکستان کی غیر متوقع ٹرانزٹ پالیسیوں کے لیے ایک پائیدار بائی پاس قائم کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تنازعے نے "بھارت کے لیے افغانستان کے بنیادی تجارتی گیٹ وے کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک کھڑکی پیش کی ہے۔"

لیکن مکھوپادھیا نے مزید کہا کہ "کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا چابہار کا متبادل روایتی زمینی سرحد کی موروثی منطق پر قابو پانے کے لیے کافی قابل اعتماد اور منافع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔"

چیلنجز اور غیر یقینی صورتحال

تاہم، افغان امور کی ماہر شانتی میریٹ ڈی سوزا نے نشاندہی کی کہ چابہار کو متوقع دو بلین ڈالر سے زیادہ کے افغان تجارتی بائی پاس کو سنبھالنے کے لیے اہم لاجسٹک اور آلات کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دی ڈبلیو کو بتایا، "اس کے باوجود، سب سے اہم ضرورت ریل روابط کو چالو کرنا ہے، خاص طور پر چابہار-زاہدان روٹ کے ساتھ۔ بدقسمتی سے، کئی چیلنجز اس پیشرفت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جن میں سب سے اہم ایران پر امریکی پابندیاں ہیں۔"

اگرچہ نئی دہلی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے، تاہم دونوں فریقوں نے حالیہ مہینوں میں دو طرفہ مصروفیات کو گہرا کیا ہےتصویر: Indian Ministry of External Affairs/Anadolu/picture alliance

انہوں نے مزید کہا، "تجارتی ناکہ بندی کی مدت کے ارد گرد کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر، ان لاجسٹک اور سسٹم کے مسائل کو حل کرنا مختصر سی درمیانی مدت میں مشکل عمل بھی ہے۔"

تجارتی تعلقات کو پہلے سے ہی باضابطہ اور مضبوط کرنے کے بعد، ڈی سوزا نے کہا کہ بھارت کو اب افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو اس طرح سے تشکیل دے کر اپنے طویل مدتی اثر و رسوخ کو محفوظ بنانا چاہیے جس سے افغان خود انحصاری کو فروغ ملے۔

انہوں نے کہا، "بھارت کو افغان عوام میں خیر سگالی حاصل ہے، اور طالبان کے ساتھ اس کے موجودہ دوستانہ تعلقات اس عمل کو آسان بنا سکتے ہیں، جو اسے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے مزید لچکدار بنا سکتے ہیں۔"

عملی مصروفیت

اگرچہ نئی دہلی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے، تاہم دونوں فریقوں نے حالیہ مہینوں میں دو طرفہ مصروفیات کو گہرا کیا ہے، خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے پس منظر میں موقع اور ضرورت دونوں کی وجہ سے۔

ڈی سوزا کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اپنی موجودہ موثر ناکہ بندی ہٹاتا ہے اور دوستی کا ہاتھ کابل تک بڑھاتا ہے تو افغانستان کے لیے بھارت کو تجارتی راستوں کو مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا، "تاہم، طالبان سے رعایتیں حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے سرحد کی بندش کو ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ماضی کی مثالوں کو دیکھتے ہوئے، افغانستان زیادہ قابل اعتماد اور متنوع متبادل کی طرف اسٹریٹجک تبدیلی کی طرف مائل ہو گا۔"

ایسا ہونے کے لیے، بھارت ایران اور افغانستان کو تہران پر مغربی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا، جو اقوام متحدہ نے ستمبر میں دوبارہ نافذ کی تھیں۔

تاہم، پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر راگھون چابہار کے ساتھ بھارت کے مواقع کی کھڑکی کے بارے میں احتیاط برتنے کی بات کہتے ہیں۔

راگھون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمیں یہ مانتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی رکاوٹ خود بخود ہمارے لیے ایران کے راستے افغانستان کو "برآمد کرنے کے مواقع پیدا کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "بنیادی ڈھانچے کی شدید رکاوٹوں کے علاوہ امریکی پابندیوں جیسے مسائل ہیں، جن میں سے سبھی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایران کے لیے بھارتی برآمدات کو سختی سے دبانے کا کام کیا ہے۔ اس کا اطلاق افغانستان کو ہونے والی برآمدات پر بھی ہوگا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میں موجودہ تعطل کو برسوں تک جاری رہتے نہیں دیکھ رہا۔ لیکن مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ ہم کچھ دنوں یا ہفتوں کے اندر تیزی سے ہوتی بہتری دیکھ سکیں گے۔"

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

ملک میں دہشت گردی افغانستان سے محبت کا شاخسانہ ہے، خواجہ آصف

17:51

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں