پاکستان، افغانستان جھڑپیں: استنبول مذاکرات کا تیسرا دور آج
6 نومبر 2025
یہ بات چیت کئی ہفتوں کی سفارتی کوششوں کے بعد ہو رہی ہے، جن کی ابتدا گزشتہ ماہ ہونے والے مہلک سرحدی جھڑپوں کے بعد ہوئی تھی۔ ان جھڑپوں نے 2021 میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو بدترین سطح پر پہنچا دیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے وفود استنبول پہنچ چکے ہیں، جہاں ترکی اور قطر کی مشترکہ ثالثی میں یہ دو روزہ مذاکرات منعقد کیے جا رہے ہیں۔
اس دور میں پاکستان کے وفد کی قیادت آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کر رہے ہیں۔ وفد میں فوج، خفیہ اداروں اور وزارتِ خارجہ کے سینئر حکام شامل ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے وفد میں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس کے سربراہ عبد الحق واثق، نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین شامل ہیں۔
پاکستانی میڈیا نے ایک ثالث ملک کے سفارتکار، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کے حوالے سے کہا کہ دونوں فریق پچھلے دور میں طے پائے گئے وعدوں کے نفاذ کا جائزہ لیں گے اور گزشتہ ہفتے اصولی طور پر منظور کیے گئے مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔
گزشتہ دور کے اختتام پر ترک وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ''تمام فریقین نے فائر بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے‘‘ اور ’’ایک ایسا مانیٹرنگ و تصدیقی نظام قائم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے جو امن کے قیام کو یقینی بنائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرے گا۔‘‘
پاکستانی وزیر دفاع کی وارننگ
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پاکستانی وفد کی مذاکرات میں شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ''افغانستان دانشمندی سے کام لے گا اور خطے میں امن بحال ہو جائے گا۔‘‘
خواجہ محمد آصف نے ایک پاکستانی میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آج استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے حوالے سے کہا ہے کہ ناکامی کی صورت میں 'فوجی آپشن‘ استعمال کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے ہماری سرزمین پر حملے نہ ہوں جسے افغان طالبان مانتے ہیں لیکن تحریری طور پر ضمانت نہیں دینا چاہتے۔
پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں ''اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اور دراندازی ہوتی رہی تو فوجی آپشن استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘
خواجہ آصف نے کہا کہ استنبول میں ہونے والے تیسرے دور میں افغان وزیر دفاع نہیں آ رہے، اس لیے وہ بھی شرکت نہیں کر رہے۔
کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے؟
پاکستان کے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آخری مذاکرات ہیں لیکن مذاکرات میں پیش رفت کا امکان کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر پیش رفت رد کر دی تو پھر مذاکرات لاحاصل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ''(افغان) طالبان سے جب مطالبہ کرتے ہیں تو گول مول بات کرتے ہیں اور تحریری یقین دہانی سے اجتناب کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ''بھارت کا کابل پر اثر رہا ہے اور بھارت نہیں چاہے گا کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ بھارت کی دلچسپی یہ ہے کہ پاکستان کو یہاں سے دہشت گردی کے ساتھ الجھائے رکھے۔ گذشتہ مذاکرات میں بھی پہلے وہ مان جاتے تھے، پھر انہیں کوئی ٹیلی فون آتا تھا تو وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔‘‘
خیال رہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں امن مذاکرات شروع ہوئے اور 19 اکتوبر کو فائر بندی کا فیصلہ ہوا۔
بعد ازاں 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کا دوسرا دور بغیر کسی حتمی معاہدے کے اختتام پذیر ہوا تھا۔
پاکستان نے 29 اکتوبر کو استنبول مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی، تاہم 30 اکتوبر کو میزبان حکومت کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا
ذرائع کے مطابق استنبول میں مذاکرات کے تیسرے دور کے دوران ان معاملات کو باضاطہ فریم ورک میں لایا جائے گا، جن پر مذاکرات کے پہلے دو ادوار میں گفتگو ہوئی تھی۔
ادارت: صلاح الدین زین