پاکستان افغانستان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم
28 اکتوبر 2025
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے درمیان استنبول میں طویل المدتی جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہو گئے ہیں۔
روئٹرز نے کہا کہ افغانستان کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان کی فوج و وزیرِ دفاع کے ترجمانوں نے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
خبر رساں ایجنسیوں نے پہلے خبر دی تھی کہ استنبول میں مذاکرات کار اس بات پر غور کر رہے تھے کہ بات چیت کو چوتھے دن تک بڑھایا جائے یا نہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کے روز خبردار کیا تھا کہ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی 'کھلی جنگ‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے پاس آپشن ہے، اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔‘‘
مذاکرات کے متعلق ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل المدتی جنگ بندی کے لیے استنبول میں ہفتے کے روز دو روزہ مذاکرات شروع ہوئے تھے، جو پیر کو بھی جاری رہے، لیکن فریقین تیسرے دن بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے، کیونکہ دونوں ممالک سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے کے طریقہ کار پر اختلافات ختم کرنے میں ناکام رہے۔
پاکستانی میڈیا نے اسلام آباد میں وفاقی وزارت دفاع کے حکام کے حوالے سے کہا کہ افغان طالبان کا وفد پاکستان کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کو پوری طرح سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم مذاکرات میں شامل ایک طالبان مندوب نے اس الزام کی تردید کی کہ وہ مذاکرات میں خلل پیدا کر رہے ہیں۔
پچھلے تین دنوں میں ہونے والے ان مذاکرات کے حوالے سے کسی بھی فریق نے کوئی باضابطہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ دونوں ممالک میڈیا کے ساتھ 'ذرائع‘ کے حوالے سے بیانات شیئر کرتے رہے۔
پاکستان کا کیا کہنا تھا؟
مذاکرات کی تفصیلات سے واقف ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنا مؤقف نرم کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے ساتھ کسی بھی تعاون کا انحصار اس بات پر ہے کہ کابل کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ عسکریت پسند گروہوں اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے جو افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔
ایک اور ذریعے نے بتایا،''اسلام آباد کا پیغام بالکل واضح تھا، دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ پاکستان نے مخصوص تجاویز پیش کی ہیں جن میں ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کے خاتمے اور سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے قابلِ تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔‘‘
ایک سکیورٹی ذریعے نے بتایا،''پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے منطقی اور معقول مطالبات جائز ہیں، لیکن افغان طالبان وفد انہیں مکمل طور پر تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔‘‘
پیر کے روز مذاکرات کا آغاز اتوار کے مایوس کن اختتام کے برعکس نسبتاً مثبت فضا میں ہوا۔ اتوار کو پاکستانی حکام نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اسلام آباد نے طالبان وفد کو اپنا ''آخری مؤقف‘‘ پیش کر دیا ہے، جسے مقامی میڈیا نے مذاکرات کے ممکنہ خاتمے کا اشارہ قرار دیا۔
طالبان کا ردعمل
مذاکرات میں شامل ایک طالبان مندوب نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے گفتگو میں اس بات کو'جھوٹ‘ قرار دیا کہ وہ مذاکرات میں خلل پیدا کر رہے اور کہا تھا کہ بات چیت ابھی جاری ہے۔
افغان طالبان کے مندوب کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ''مجموعی طور پر میٹنگ اچھی جا رہی ہے اور ہم نے دوستانہ ماحول میں متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘‘
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ''مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے، ہم نتائج کی پیش گوئی نہیں کر سکتے اور ہمیں میٹنگ کے اختتام کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ مسئلے کو حل کرنے کا واحد حل بات چیت اور افہام وتفہیم ہے۔
افغان مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے کہا،''افغان فریق نے واضح کیا کہ تناؤ کسی کے لیے فائدہ مند نہیں۔‘‘
امیدوں پر پانی پھر گیا
ترکی اور قطر کے ثالثوں نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ یہ مذاکرات مثبت نتیجہ دیں گے اور فریقین پر زور دیا تھا کہ رابطہ برقرار رکھیں اور عمل کو ناکامی سے بچائیں۔
ایک ثالث کا کہنا تھا کہ پیر کو اگرچہ بات چیت کسی بڑی پیش رفت پر ختم نہیں ہوئی، لیکن یہ بات اہم ہے کہ دونوں فریق تین دنوں سے مسلسل مصروفِ عمل رہے، جو ''یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی فریق مذاکراتی عمل کے خاتمے کا خواہاں نہیں۔‘‘
رات دیر تک استنبول میں مذاکرات کار اس بات پر غور کر رہے تھے کہ آیا بات چیت کو چوتھے روز تک بڑھایا جائے یا نہیں۔
اس دوران ملائیشیا میں آسیان سربراہی اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور افغانستان ثالثی میں مدد کی اپنی پیشکش کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ''افغانستان پاکستان بحران کو بہت جلد حل کر سکتے ہیں۔‘‘
بات چیت کیوں ہو رہی تھی؟
استنبول میں ہفتے کو شروع ہونے والے مذاکرات دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان طویل مدتی امن قائم کرنے کے مقصد سے ہو رہی تھی۔ نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی تھی۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے ان دھماکوں کا الزام پاکستان پرعائد کیا اور 11 اکتوبر کو جوابی سرحدی کارروائیاں شروع کیں، جن کا پاکستان نے جواب دیا۔
کئی دنوں کی شدید جھڑپوں میں دونوں طرف سے درجنوں اموات ہوئیں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔
پڑوسی ممالک کے درمیان ابتدائی طور 48 گھنٹے کی جنگ بندی کے بعد، 19 اکتوبر کو قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے بعد غیر واضح شرائط کے ساتھ جنگ بندی کا آغاز ہوا تھا۔
اسلام آباد کابل پر سرحد پار دہشت گردانہ حملے کرنے والے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ افغانستان اس کی تردید کرتا ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ