1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستان، افغانستان میں جھڑپ، لیکن استنبول امن مذاکرات جاری

جاوید اختر اے ایف پی، اے پی، روئٹرز کے ساتھ
7 نومبر 2025

جمعرات کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر مختصر فائرنگ کے تبادلے میں پانچ افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ دونوں ملکوں کے مابین دیرپا امن کے لیے جاری استنبول مذاکرت کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

پاکستان افغانستان استنبول مذاکرات
استنبول میں ہونے والے مذاکرات گزشتہ ہفتے فائر بندی کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے مرحلے پر رکاؤٹ کا شکار ہو گئے تھے، کیونکہ دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر عدم تعاون کا الزام عائد کیاتصویر: Qatar MFA

افغانستان کے ایک ہسپتال کے عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جنوبی صوبے قندھار کے اسپن بولدک میں جمعرات کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر مختصر فائرنگ کے تبادلے میں پانچ افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔

پاکستان کی جانب سے ہلاکتوں یا زخمیوں کی کوئی فوری اطلاع نہیں ملی۔

دونوں ممالک نے فائرنگ شروع کرنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی۔ فائرنگ کا یہ واقعہ ترکی میں جاری فائر بندی مذاکرات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے، جن کا مقصد جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان ہونے والی خونریز جھڑپوں کو ختم کرنے کے لیے ایک مستقل جنگ بندی کو حتمی شکل دینا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر بیان میں کہا، ''ایک ایسے وقت پر جب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور استنبول میں شروع ہوا ہے، بدقسمتی سے پاکستانی فورسز نے آج دوپہر سپن بولدک پر دوبارہ فائرنگ کی، جس سے مقامی آبادی میں تشویش پھیل گئی۔‘‘

انہوں نے کہا ''اسلامی امارت کی فورسز نے مذاکراتی ٹیم کے احترام اور شہری اموات سے بچنے کے لیے اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔‘‘

طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے اے ایف پی کو بتایا ''ہمیں معلوم نہیں کہ پاکستانی فائرنگ کی وجہ کیا تھی، تاہم ترکی میں مذاکرات جاری ہیں۔‘‘

ایک افغان فوجی ذریعے نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ''پاکستان نے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا۔‘‘ صوبہ قندھار کے سرحدی علاقے کے مقامی رہائشیوں کے مطابق یہ 10 سے 15 منٹ تک جاری رہی۔

تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان طالبان کے حکام کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا فائرنگ افغانستان کی جانب سے شروع کی گئی، جس کا پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری، نپی تلی اور ذمہ دارانہ کارروائی کے ساتھ جواب دیا۔

جمعرات کو اسپن بولدک میں فائرنگ شروع کرنے کی ذمہ داری دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر ڈالیتصویر: AFP

مذاکرات آج دوسرے دن بھی جاری

فائرنگ کے اس واقعے کے باوجود دونوں ممالک کے ترجمانوں نے کہا کہ وہ فائر بندی اور استنبول میں جاری مذاکرات کے لیے پرعزم ہیں۔

جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کی افواج کے درمیان گزشتہ ماہ بھی تصادم ہوا تھا، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، یہ 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ہونے والا سب سے شدید واقعہ تھا۔

ترکی اور قطر کی ثالثی میں، استنبول کے کونراڈ ہوٹل میں منعقد ہونے والے مذاکرات، جن میں میڈیا کی محدود رسائی تھی، کا مقصد پچھلے ہفتے اصولی طور پر طے پانے والے ایک ''نگرانی اور تصدیقی طریقہ کار کے فریم ورک کو حتمی شکل دینا ہے، اور ساتھ ہی افغانستان کے اندر موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں سے متعلق دیرینہ تنازعات کو حل کرنا ہے۔‘‘

دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ سکیورٹی امور ہیں، کیونکہ اسلام آباد الزام لگاتا ہے کہ کابل نے پاکستانی طالبان جیسے گروہوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں حملوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، افغان طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

استنبول میں ہونے والے مذاکرات گزشتہ ہفتے فائر بندی کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے مرحلے پر رکاؤٹ کا شکار ہو گئے تھے، کیونکہ دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر عدم تعاون کا الزام عائد کیا۔

دونوں جانب سے وارننگ دی گئی کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جھڑپیں دوبارہ شروع ہوسکتی ہیں۔

اسپن بولدک میں جمعرات کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر مختصر فائرنگ کے تبادلے میں پانچ افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئےتصویر: Pakistan Armed Forces Inter-Serv/REUTERS

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی ناراضگی

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے پاکستان-افغانستان مذاکرات کے حوالے سے مشاورت میں صوبے کو شامل نہ کیے جانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، حالانکہ ان کے مطابق صوبہ اس عمل میں ایک اہم فریق ہے۔

جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ اگرچہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن خیبر پختونخوا حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔

اس دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان تمام اہم سرحدی گزرگاہیں اب بھی تجارت اور عام شہری آمدورفت کے لیے بند ہیں۔ یہ گزرگاہیں 12 اکتوبر کو بند کی گئی تھیں، اگرچہ پاکستان نے ان میں سے دو کو جزوی طور پر دوبارہ کھول دیا ہے تاکہ افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جا سکیں۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں