1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان افغانستان کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں ساتھ دے، راسموسن

20 مئی 2012

نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے اسلام آباد حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں استحکام لانے کی کوششوں میں ساتھ دے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

شکاگو میں نیٹو کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے ایک پالیسی فورم میں خطاب کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا: ’ہم پاکستان کے مثبت تعاون کے بغیر افغانستان میں مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ مسائل ہر صورت میں حل کرنے ہیں۔‘

نیٹو پہلے بھی اسلام آباد حکومت پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ شورش پسندوں کو پاک افغان کمزور سرحد سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں پناہ لینے سے روکنے کے اقدامات کرے۔

نیٹو کا سربراہی اجلاس 20 اور 21 مئی کو امریکی شہر شکاگو میں ہو رہا ہے جس پر افغانستان کا معاملہ حاوی رہے گا۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو بھی اس سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن مغربی دفاعی اتحاد کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی صدر آصف زرداری سے ملاقات کریں گےتصویر: AP

اجلاس شروع ہونے سے قبل پاکستانی صدر کی نیٹو کے سربراہ کے ساتھ ملاقات طے تھی مگر بظاہر لندن سے ان کے طیارے کی آمد میں تاخیر کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا۔

نیٹو کی خاتون ترجمان کارمِن رومیرو نے کہا کہ شیڈول کے مسئلے کی وجہ سے ملاقات کو منسوخ کیا گیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’زرداری کا طیارہ تاخیر سے آیا‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ منصوبے کے تحت ملاقات نہیں ہو سکے گی۔

صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ راسموسن کے ساتھ ملاقات ’اگر ممکن ہوا تو بعد میں کی جائے گی‘۔

جمعے کو پاکستان نے کابل میں امریکی سفارت خانے کا سامان لے جانے والے چار ٹرکوں کو ملک سے گزرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس پیشرفت کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد حکومت شاید جلد ہی نیٹو کے ٹرکوں کو افغانستان میں موجود فوجیوں کے لیے رسد لے جانے کی اجازت دے دے۔

گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد پاکستان نے بطور احتجاج نیٹو کا سپلائی رُوٹ بند کر دیا تھا۔

نیٹو کے دو روزہ سربراہی اجلاس میں افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریاں بتدریج افغان فورسز کو سونپنے اور 2014 ء تک وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر نیٹو کے حملے کے بعد اسلام آباد حکومت نے نیٹو کی سپلائی لائن معطل کر دی تھیتصویر: dapd

مغربی دفاعی اتحاد کو امید ہے کہ رواں برس کے اختتام تک افغانستان کی 352,000 اہلکاروں تک پہنچے والی سیکورٹی فورسز آئندہ سال سے ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھال سکتی ہیں۔

تاہم فرانس کے نئے صدر فرانسوا اولانڈ کی جانب سے رواں برس ہی اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کے اعلان نے نیٹو کے اس منصوبے کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ فرانس کے اس وقت ساڑھے تین ہزار فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔ تاہم اولانڈ نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اپنے پیشرو نکولا سارکوزی کے دستخط کردہ اس معاہدے کی پاسداری کریں گے جس کے تحت فرانسیسی اہلکار افغان پولیس اور فوج کو تربیت میں مدد دیں گے۔

تاہم فرانس کے جلد انخلاء کے اعلان کے باوجود نیٹو اس جنگ کے آخری دو سالوں میں ایک متحدہ مؤقف ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

راسموسن کا کہنا تھا کہ وہ واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نیٹو افغانستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

(hk/ng (AFP

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں