1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات

16 دسمبر 2023

پاکستان سے افغان مہاجرین کے انخلا کے باعث ملک کے کئی شعبوں کو ہنر مند افراد کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔

Afghanistan Grenze Pakistan Migration Flüchtlinge Rückkehr
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

قانونی دستاویزات کے حامل نہ ہونے پر ہزاروں افغان باشندوں کی اچانک روانگی نے ایک بزرگ پاکستانی خاتون بی بی جوزارہ کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے وہ افغانستان کی سرحد سے متصل جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں اپنے فارم کی دیکھ بھال کے لیے افغان مہاجرین پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے گزشتہ ماہ تقریباً 1.7 ملین غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدری کا حکم دیے جانے کے بعد سے وہ اپنی زمین پر سیب کے درختوں اور انگور کی بیلوں کی کٹائی اور کھاد بنانے کے لیے ہنر مند کارکنوں کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

ان کے مطابق، ''یہ باغات کے لیے بہت اہم وقت ہے، ان میں کھاد ڈالے جانے کا موسم ہے لیکن میرے پاس اس کام کے لیے لوگ ناکافی ہیں۔" جوزارہ کے پاس پانچ افغان پشتون خاندان ملازمت کرتے تھے۔یہ لوگ 1979 میں سوویت حملے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں آبسے تھے۔

پاکستان میں پیدا ہونے اور پرورش کے باوجود افغان مہاجرین کی نئی ​​نسلیں کھیتی باڑی کرنے اور خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے اپنے آجر پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن حالیہ تارکین وطن مخالف پالیسیوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر افغان باشندے بلوچستان اور شمال مغربی خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں رہ رہے تھے۔ یہ دونوں صوبے افغانستان کی سرحد سے ملحق ہیں۔ یہاں مقیم تارکین وطن کو کبھی دستاویزات کی ضرورت محسوس نہیں ہوءی اور وہ عموماً چند علاقوں تک ہی محدود رہے۔

اس سال کے شروع میں پاکستانی حکومت کی جانب سے ان افغان خاندانوں کو جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں تھے پاکستان سے نکل جانے کا کہا گیا، ایسا سکیورٹی خدشات اور اقتصادی مشکلات کے پیش نظر کیا گیا۔

پاکستانی حکام کے اس وعدے کے باوجود کہ 2.3 ملین وہ افغان تارکین وطن فی الحال ملک میں رہنے کے مجاز ہیںتاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ حکومت تمام تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی حالت زار

04:01

This browser does not support the video element.

افغان مزدور اور پاکستانی آجر دونوں مشکل میں

افغان مزدور سستے، ہنر مند اور محنتی ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تاہم ان کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے اب پاکستان کو سرحدی علاقوں میں زراعت اور کان کنی جیسے شعبوں میں مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے۔

بلوچستان کے ضلع دوکی سے تعلق رکھنے والے جہانگیر شاہ کوئلے کی کان کے مالک ہیں۔ ان کی کان میں کام کرنے والوں میں 60 فیصد سے زائد ملازمین کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے مطابق وہ اتنے کم عرصے میں نئے ملازمین ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ بہتر اجرت کے باوجود اس کام کے لیے یہاں نہیں آنا چاہتے۔‘‘

 بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور پشتون سردار محمد شفیق ترین نے خبردار کیا ہے کہ صوبے بھر میں کانوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے تقریباً 80 فیصد کارکن افغان تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں کے اخراج سے پاکستان سے افغانستان بھیجی جانے والی ترسیلات بھی بند ہو جائیں گی، جس کے باعث اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچے گا۔

 

مقامی کان کنی کی صنعت کے لیے مشکل ترین صورتحال

مختلف سیاسی جماعتیں اور تاجر تنظیمیں 20 اکتوبر سے سرحدی شہر چمن میں دھرنا دے کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ انہوں نے مہاجرین مخالف پابندیوں کے تناظر میں ویزا پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔

پاکستان ورکرز فیڈریشن کے بلوچستان چیپٹر کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ کے مطابق صوبے کی کانوں میں کام کرنے والے نصف سے زیادہ افغان ملک چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے صورتحال پریشان کن ہے۔

کاکڑ نے کہا کہ کان کے مالکان نے حال ہی میں نگراں وزیر داخلہ سے ملاقات بھی کی اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا کہ افغان کارکنوں کو بلاوجہ پریشان نہ کیا جائے۔ لیکن کاکڑ کے مطابق یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔

جمیلہ اچکزءی (ر ب/ ع ت)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں