پاکستان: اقلیتی حقوق کمیشن کے قیام کی راہ ہموار
3 دسمبر 2025
منگل کے روز پاکستانی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی نعرے بازی کے دوران 160 اراکین کے ووٹوں سے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کو منظور کر لیا گیا جبکہ 79 اراکین نے اس بل کی مخالفت کی۔ اس قانون کے تحت ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک قانونی ادارہ قائم کیا جائے گا۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق سپریم کورٹ نے جون سن 2014 میں پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے خودکش حملے، چترال میں کیلاش اور اسماعیلی فرقے کو دھمکیاں ملنے کے واقعات پر ازخود نوٹس کیس میں تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا، جس میں عدالت عظمیٰ نے اقلیتوں کے حقوق کی نیشنل کونسل کے قیام کا حکم دیا تھا۔
اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے 11 سال بعد حکومت نے اقلیتوں کے حقوق پر بل منظور کیا۔ اس کمیشن کا بنیادی فریضہ آئین اور قانون کے تحت اقلیتوں کو دیے گئے حقوق اور تحفظات کے عملی نفاذ کی نگرانی کرنا ہو گا۔
مجوزہ کمیشن کیسا ہو گا؟
اس بل کے مطابق مجوزہ کمیشن میں تمام صوبوں اور اقلیتی برادریوں کے نمائندے شامل ہوں گے تاکہ شمولیت اور مؤثر نگرانی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس ایکٹ کے تحت ایک کونسل قائم کی جائے گی۔
یہ کونسل 18 اراکین پر مشتمل ہو گا، جن میں تین ہندو اراکین (جن میں سے دو شیڈول ذاتوں سے ہوں گے)، تین مسیحی اراکین جبکہ سکھ، بہائی اور پارسی کمیونٹی سے ایک ایک رکن اور انسانی حقوق کے پس منظر والے دو مسلم اراکین شامل ہوں گے۔ ان کے ساتھ ہی ہر صوبائی انسانی حقوق یا اقلیتوں کے امور کے محکمہ سے ایک نمائندہ اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری سے ایک اقلیتی رکن بھی شامل کیا جائے گا۔
بل کی حمایت
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ ''اپوزیشن نے بل کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی‘‘ اور ساتھ ہی انہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال پر اپوزیشن ارکان پارلیمان کی مذمت کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کی حمایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ 'نہ تو قانون اور آئین اور نہ ہی ہمارا ضمیر ہمیں ایسی کوئی تجویز پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہو‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ غیر مسلموں کی تعریف آئین میں موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا، ''یہ کمیشن غیر مسلموں کے لیے ہے۔ ہمارے ہندو، مسیحی اور پارسی بھائی اتنے ہی اچھے پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں۔‘‘
دوسری طرف جے یو آئی ایف کے رکن اسمبلی کامران مرتضی نے کہا کہ ہم اقلیتوں کو اپنے برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔ لیکن 'یہ قانون منظور ہو گیا تو احمدیوں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون غیر مؤثر ہو جائے گا۔ اس قانون میں سے یہ شق نکالنی ضروری ہے‘۔ اس بل سے شق 35 کو حذف کر دیا گیا ہے، شق 35 کے تحت تجویز کیا گیا تھا کہ اگر یہ کمیشن کوئی فیصلہ، سفارش یا رپورٹ جاری کرتا ہے تو وہ فیصلہ پاکستان کے کسی بھی موجودہ قانون پر سبقت رکھ سکتا تھا۔
بل کی مخالفت
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ احمدیوں کے معاملے کا پینڈورا باکس، جنہیں سن 1974 میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، دوبارہ نہیں کھولا جانا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ شق حذف نہ کی گئی تو مستقبل میں مذہبی حوالوں سے کسی بحران کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے نورالحق قادری نے مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کی تائید کی۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بھی بل کی مخالفت کی۔
پارلیمنٹ نے یہ قانون اس وقت منظور کیا ہے، جب یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ