پاکستان ،امریکہ عسکری مفاہمت
14 فروری 2009ایک طرف صدر آصف علی زرداری نے تازہ بیان اور انٹرویوز میں طاقت کے استعمال کو انتہاءپسندوں سے نمٹنے کا واحد ذریعہ بتایا ہے اورکہا ہے کہ مٹھی بھر عسکریت پسندوں کو ملک پر اپنے رجعت پسندخیالات اور نظریات کو مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا ۔دوسری طرف وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی آپریشن فاٹا اور دوسرے علاقوں میں عسکریت پسندی کے خاتمے کاواحد حل نہیں ہے۔
وزیر اعظم اور صدر کے انہی بیانات کے ساتھ ہفتے کی صبح جنوبی وزیرستان کے لدھانامی گاﺅں پر دو میزائل حملوں میں تین درجن کے قریب افراد جن میں اکثریت ازبک باشندوںکی بتائی جاتی ہے ہلاک ہوگئے یہ حملہ امریکی سینٹ میں سینیٹر ڈی این فائن سٹائن کے اس بیان کے ایک روز بعد ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بغیر پائلٹ کے جن طیاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں وہ پاکستانی فضائیہ کے اڈے استعمال کر رہے ہیں۔ سابق خارجہ سیکرٹری ریاض کھوکھر کے مطابق اعلیٰ ترین قیادت کے مابین اہم امور پر ہم آہنگی کی کمی اور امریکی میزائل حملے انتہائی تشویشناک ہیں اور ان سے ملک دشمن عناصر بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
” اگر پاکستان کے حالات دیکھیں تو سیاسی یا دفاعی لحاظ سے کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور معاشی لحاظ سے بھی ہم آج بہت کمزور حالت کے حامل ہیں۔ قومی سطح پر ان معاملات کا حل نہ ہوا تو ہمارے اندرونی مسائل اور بھی بڑھ جائیں گے ۔ میرے خیال میں اندرونی مسائل ہی ہمارے بنیادی مسائل ہیں جن میں مزید اضافہ ہو گا “۔
مبصرین کے خیال میں صدرزرداری کے تازہ ترین بیان اور وزیرستان پر ایک اور میزائل حملے سے ظاہرہوتا ہے کہ اس معاملے پر کم ازکم پاکستان کی سیاسی حکومت اور امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی نہ کوئی مفاہمت ضرور موجود ہے ۔