1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: امریکی ڈالر 105 روپے کا

رفعت سعید، کراچی26 جولائی 2013

غیر قانونی ترسیلات زر پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ سرکلر کے بعد روپے کی قدر میں ہوش ربا کمی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر 101 جبکہ اوپن مارکیٹ میں 105 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

تصویر: AP

اس سرکلر کے بعد کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں حالیہ کمی نے عوام کو افواہوں اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھہ ماہ میں روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کا کہناہے کہ ڈالر کا 100 روپے کی نفسیاتی حد عبور کرنا شرمناک ہے۔ روپیہ پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا مگر آئی ایم ایف سے معاہدے اور مرکزی بینک کے سرکلر نے بے یقینی کی فضا پیدا کردی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عنقریب مہنگائی کا ایک طوفان آنے والا ہے، جس میں عام ضروریاتِ زندگی بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گیتصویر: AP

وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ صرف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ڈالر کے موجودہ بحران کا آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کرنے کی شرائط عائد کی گئی ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی روپے کی بے قدری کی بڑی وجہ کرنسی ڈیلرز کی طرف سے بڑی مقدار میں ڈالرز کا ذخیرہ کرنا اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔

ناقدین کے خیال میں روپے کی قدر میں کمی کے پیچھے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئی شرائط کا بھی ہاتھ ہے تاہم حکومت اس الزام کو رَد کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

کرنسی ایکسچینج ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی طرف سے منی لانڈرنگ روکنے کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر کی فراہمی کی شرط عائد ہونے کے بعد غیر قانونی ترسیلات زر میں اضافہ ہو گا کیونکہ لوگ اپنا ٹیکس نمبر فراہم کرنے کی بجائے مارکیٹ سے مہنگا ڈالر خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 29 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اب یہ ذخائر گھٹ کر 10 ارب، 20 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد امید تھی کہ معیشت اور روپے کی قدر مستحکم ہو گی مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سب سے پہلے عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے پر دستک دی۔ بجٹ خسارے، بیرونی امداد پر انحصار اور آمدنی سے زیادہ اخراجات نے معاشی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ کار ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات براہ راست عوام پر پڑیں گے اور روپے کی حالیہ بے قدری مہنگائی کا طوفان لے کر آئے گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء بھی کئی گنا مہنگی ہو جائیں گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں