پاکستان: امریکی ڈالر 105 روپے کا
26 جولائی 2013اس سرکلر کے بعد کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں حالیہ کمی نے عوام کو افواہوں اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھہ ماہ میں روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کا کہناہے کہ ڈالر کا 100 روپے کی نفسیاتی حد عبور کرنا شرمناک ہے۔ روپیہ پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا مگر آئی ایم ایف سے معاہدے اور مرکزی بینک کے سرکلر نے بے یقینی کی فضا پیدا کردی ہے۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ صرف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ڈالر کے موجودہ بحران کا آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کرنے کی شرائط عائد کی گئی ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی روپے کی بے قدری کی بڑی وجہ کرنسی ڈیلرز کی طرف سے بڑی مقدار میں ڈالرز کا ذخیرہ کرنا اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔
کرنسی ایکسچینج ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی طرف سے منی لانڈرنگ روکنے کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر کی فراہمی کی شرط عائد ہونے کے بعد غیر قانونی ترسیلات زر میں اضافہ ہو گا کیونکہ لوگ اپنا ٹیکس نمبر فراہم کرنے کی بجائے مارکیٹ سے مہنگا ڈالر خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 29 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اب یہ ذخائر گھٹ کر 10 ارب، 20 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد امید تھی کہ معیشت اور روپے کی قدر مستحکم ہو گی مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سب سے پہلے عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے پر دستک دی۔ بجٹ خسارے، بیرونی امداد پر انحصار اور آمدنی سے زیادہ اخراجات نے معاشی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ کار ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات براہ راست عوام پر پڑیں گے اور روپے کی حالیہ بے قدری مہنگائی کا طوفان لے کر آئے گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء بھی کئی گنا مہنگی ہو جائیں گی۔