1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: انتخابات کے ایک سال بعد

تھوماس بیرتھلائن/افضال حسین18 فروری 2009

تقریباً ایک عشرے کی فوجی حکومت کے بعد پاکستان میں آنے والی جمہوریت سے سب نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔

فروری دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد لاہور شہر میں مسلم لیگ ن کے حامی جشن منارہے تھےتصویر: AP

نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کا بھی پرویز مشرف پر سے اعتماد اٹھ چکا تھا، جو ہر قیمت پر برسر اقتدار رہنا چاہتے تھے۔

بہت سے لوگوں نے یہ امیدیں لگا رکھی تھیں کہ ایک جمہوری حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں عوام کو بہتر طریقے سے متحرک کر سکے گی تاہم ایک سال بعد بھی یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ فوج نے سیاست سے کس حد تک دوری اختیار کر لی ہے۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اُس وقت کے وائس چیف اور موجودہ چیف آف پاکستان آرمی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہمراہ .تصویر: AP

برلن کے ماہر سیاسیات وولف گانگ میرکل نے پاکستان کی جمہوریت کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا:’’فوج اپنے لئے ایک طرح سے چھا جانے والے کردار کا حق جتاتی ہے۔ اس صورت میں بھی جب آزادانہ انتخابات ہو چکے ہوں۔‘‘

بیشتر پاکستانی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ جمہوریت پسندوں نے فوج کو اقتدار سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال کہتے ہیں: ’’عوام نے ہر ڈکٹیٹر کو جمہوری طریقے سے پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ہر ڈکٹیٹر کو کبھی نہ کبھی انتخابات کرانے پڑتے ہیں۔ اس کے سامنے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سول معاشرے نے ہر ڈکٹیٹر کے خلاف جد وجہد کی اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔‘‘

پاکستانی وکلاء معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے زبردست طریقے سے سرگرم تھےتصویر: AP

ایک سال تک لوگوں نے وکیلوں کی قیادت میں مشرف کے خلاف مظاہرے کئے کیوں کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ایک سال قبل کے انتخابات کے بعد دونوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اتحاد سے بڑی مخلوط حکومت قائم ہوئی لیکن مسلم لیگ ن کو جلد ہی پیچھے ہٹنا پڑا کیوں کہ پی پی پی کے سربراہ آصف زرداری معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرنے کے وعدے سے پھر گئے تھے۔

وفاقی جرمن پارلیمان کے ممبر ڈیٹلیف ڈسیمبرٹسکی نے پاکستانی انتخابات کے بارے میں کہا: ’’یہ نہ دیکھا جائے کہ کن جماعتوں نے کامیابی حاصل کی بلکہ یہ کہ کن جماعتوں کو عوام نے ووٹ نہیں دئیے۔ قابل غور بات یہ ہےکہ انتہا پسندوں کو کہیں بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں