پاکستان انتہا پسندوں کی مدد بند کرے، امریکی وزیر خارجہ
24 اکتوبر 2018
امریکی وزیر خارجہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ افغان انتہاپسندوں کی مدد بند کرے۔ اپنے اسی بیان میں امریکی وزیر خارجہ سے افغان انتخابات کے انعقاد کا خیرمقدم کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada
اشتہار
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم نہیں کرے گا اور اس ضمن میں اپنی سرحدی نگرانی کے انتظامات کو مزید بہتر کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے لیے امریکی پیغام واضح اور صاف ہے کہ دہشت گردوں کی مزید مدد مت کی جائے۔
پومپیو کے مطابق اگر اسلام آباد مزید اقدامات نہیں کرتا تو اُسے حالات بگاڑنے کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا کہ طالبان اور حقانی گروپ کے لیے پاکستان کے اندرونی علاقے محفوظ مقامات کے طور پر قائم نہیں رکھے جا سکتے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی کے تناظر میں گزشتہ ماہ پاکستان کی تین سو ملین امریکی ڈالر کی فوجی امداد کو روک دیا ہے۔
پومپیو کے مطابق افغانستان میں سبھی فریق امن کے متمنی ہیں اور اس منزل کو ایک دن حاصل کر لیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کی نگرانی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس وقت بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کی نگرانی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
اس صورت حال میں پاکستان کا موقف ہے کہ افغان جنگ میں داخلی سطح پر انتہاپسندوں کے خلاف عسکری کارروائیاں کرتے ہوئے بے پناہ انسانی جانوں کی قربانیاں دی گئی ہیں اور وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں میں مدد کر سکتا ہے۔
امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان انتخابات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر پیدا ہونے والی بدمزگیوں کے باوجود افغان ووٹرز کے ٹرن آؤٹ پر امریکا کو مسرت ہوئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد رواں مہینے کے اوائل میں طالبان کے وفد سے خلیجی ریاست قطر میں ملاقات کر چکے ہیں۔ طالبان اور امریکا کے درمیان رواں برس کے دوران یہ براہ راست پیدا ہونے والا دوسرا رابطہ ہے۔
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ امریکی امداد کس طرح مدد کرتی ہے؟
تصویر: picture-alliance/Zuma
مالی وسائل کی تقسیم
امریکا کا غیر ملکی امداد کا سسٹم، فارن ایڈ ایکٹ 1961 کے ماتحت آتا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی مالی مدد کو بہتر طریقے سے نافذ کرنا ہے۔ امریکا میں اس مالی مدد کو ’وسائل کی دنیا کے ساتھ تقسیم‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/KCNA
امریکا کتنی امداد دیتا ہے؟
چند حالیہ اندازوں کے مطابق امریکا کے وفاقی بجٹ کا کُل 1.3 فیصد حصہ امداد کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ تاہم کس شعبے میں کتنی مدد دی جاتی ہے اس تناسب میں ہر سال تبدیلی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sedensky
امداد کس طرح خرچ کی جاتی ہے؟
سال 2015 کے ایک ڈیٹا کے مطابق، کُل امداد کا 38 فیصد حصہ طویل المدتی ترقیاتی معاونت کے لیے جاری کیا گیا۔ یہ امداد عام طور پر کمزور معیشت کے حامل غریب ممالک کے علاوہ صحت کے شعبے میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain
اقوام متحدہ کا حصہ
امریکی امداد کا کُل 15 فیصد حصہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامز کے لیے مختص ہے۔ اس کے علاوہ 35 فیصد امداد عسکری اور دفاعی شعبوں کو، 16 فیصد انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر زلزلے، جنگ یا خشک سالی سے متاثرہ ممالک کو اور 11 فیصد سیاسی امداد کی مد میں دی جاتی ہے۔
تصویر: Picture alliance/Keystone/M. Girardin
کن ممالک میں امداد دی جا رہی ہے؟
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کو امریکی امداد دی جاتی ہے۔ سال 2015 کے ڈیٹا کے مطابق افغانستان، اسرائیل، مصر اور اردن کو بنیادی طور پر زیادہ امداد دی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امداد افغانستان کو سکیورٹی کی مد میں جبکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں دی گئی۔