پاکستان اور افغانستان کو ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، قریشی
15 ستمبر 2018
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات میں خطے میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کیے ہیں۔ وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد قریشی کا سرکاری طور پر یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہفتے کے دن کابل پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ قریشی نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے علاوہ دیگر کئی اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔
افغان صدر دفتر کی طرف سے جاری ہوئے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صدر اشرف غنی سے ملاقات میں خطے میں قیام امن کی خاطر مختلف پہلوؤں اور امور پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان صدر کی کوشش ہے کہ ملک میں امن قائم کرنے کی خاطر جاری کوششیں میں تیزی لائی جائے۔
کابل حکومت کے بیان کے مطابق اشرف غنی نے قریشی سے ملاقات میں اصرار کیا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا تعاون اور مدد انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ پاکستانی وفد نے افغان حکام سے ملاقاتوں میں علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔
پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ وزیر خارجہ قریشی نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ہمیں ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور ہمیں ان سے نمٹنے کی خاطر مل جل کر ہی کام کرنا ہو گا۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک دہشت گردی کے تعاون کے لیے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان نے بتایا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک روزہ دورہ افغانستان کے دوران افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں باہمی تعلقات میں مزید بہتری پیدا کرنے کے علاوہ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی سے بھی خصوصی ملاقات کی۔ اس موقع پر قریشی نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بہت سے امکانات ہیں۔
پاکستانی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے اس دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے مابین رابطہ کاری میں بہتری پیدا کرنا ہے۔ مقامی میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ’’وزیر خارجہ کے اس دورے کا بنیادی مقصد سکیورٹی سے جڑے مسائل کے حوالے سے دونوں ممالک میں رابطہ کاری کو زیادہ بہتر بنانا ہے۔‘‘
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔