پاکستان اور افغان طالبان کے لئے امریکا کا نرم گوشہ
عبدالستار، اسلام آباد
7 مارچ 2018
امریکا کی طرف سے افغان طالبان اور پاکستان کی شکایات کو جائز قرار دینے کے بیان کو پاکستان میں کئی حلقے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ لیکن کہیں یہ بیان امریکی چال تو نہیں؟
اشتہار
انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے کہا ہےکہ پاکستان اور افغان طالبان کی شکایات جائز ہیں اور یہ کہ واشنگٹن ان شکایات پر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان آنے والے دنوں میں بات چیت شروع ہوگی۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک امریکی چال ہے جس میں وہ مذاکرات کی پیشکش کر کے طالبان کو ان مذاکرات کی ناکامی کاذمہ دار ٹھہرا دے گا جب کہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ واشنگٹن مذاکرات میں مخلص ہے اور وہ واقعی افغان جنگ کاحل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے۔
اس امریکی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’امریکا کو معلوم ہے کہ افغان طالبان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جو امریکا کبھی بھی پورا نہیں کرے گا کیونکہ وہ خطے میں رک کر پاکستان، ایران، روس اور چین پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ افغان طالبا ن کی یہ شکایت رہی ہے کہ امریکا ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ان کے لوگوں پر سفری پابندیاں لگاتا ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی پیشکش تو اشرف غنی نے حا ل ہی میں کی ہے۔ انہوں نے تو طالبان کو پاسپورٹ جاری کرنے، کابل میں دفتر کھلونے سمیت کئی اہم پیشکشیں کی ہیں۔ لیکن ان پیش کشوں سے پہلے آپ کو امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا معطالعہ کرنا چاہیے، جہاں وہ روس اور چین کو ایک طریقے سے اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ٹلرسن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب دہشت گردی امریکا کا مسئلہ نہیں۔ تو اس سارے تناظر میں اگر امریکی بیان کو دیکھا جائے تو یہ صرف ایک چال ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ممالک کو سمجھنے کے لئے ان کی تحریری پالیسی کو دیکھنا ہوتا ہے اور اس پالیسی میں وہ بھارت کو اس خطے میں کردار دینا چاہتے ہیں۔ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ امریکا اس پیش کش کے بعد مذاکرات کرے گا اور پھر یہاں سے نکل جائے گا۔ امریکا اب اس خطے میں طویل عرصے تک قیام کرنا چاہتا ہے۔ لہذا اس بیان کو ایک چال سے زیادہ نہ سمجھا جائے۔‘‘
لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ امریکا کی معاشی مجبوری اسے طالبان اور پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔’’یہ اب کوئی خفیہ بات نہیں ہے کہ افغان طالبان کے امریکی کمپنی یونی کول سے مراسم تھے۔ اور یہ کمپنی ٹاپی کی پائپ لائن ڈالنا چاہتی تھی۔ بعد میں طالبان کی طرف سے شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کمپنی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اب امریکا نے ان پرانے تعلقات اور روابط کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹاپی کے لئے دو اہم فریق ہیں ایک پاکستان اور دوسرے طالبان۔ یہ پائپ لائن اس وقت تک پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک طالبان افغانستان میں امن قائم کرنے میں مدد نہ کریں اور پاکستان اس پائپ لائن کو بھارت تک رسائی نہ دیں۔ لہذا امریکا ان دونوں فریقین کو منانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ بیان اس ہی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ روس اور داعش بھی ان محرکات میں سے ہیں، جو تمام فریقین کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔’’روس بھی افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر امریکا اس دوڑ میں پیچھے رہا تو اس کی عالمی قیادت پر سوالات اٹھیں گے۔ طالبان اس لئے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے لوگ جنگ کی طوالت کی وجہ سے داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اگر یہ جنگ چلتی رہی تو طالبان کے لوگ اسی طرح داعش میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ لہذا طالبان بھی چاہتے ہیں کہ اس کا مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکلے۔‘‘
کابل سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار وحید اللہ عزیزی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا کو معلوم ہے کہ اس مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اشرف غنی کی پیش کش کی حمایت کرتا ہے، جس میں انہوں نے طالبان سے غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے کی بات ہے۔ ٹاپی پائپ لائن گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے دوستوں اور دشمنوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا ہے۔ طالبان، جنہوں نے اس پروجیکٹ پر نوے کی دہائی میں کام شروع کیا تھا، بھی اس پروجیکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔