پاکستان اور بھارت کے بعد محمد بن سلمان چین پہنچ گئے
21 فروری 2019
سعودی ولی عہد پاکستان اور بھارت کے دوروں کے بعد جمعرات کے دن چین پہچ گئے ہیں۔ اس علاقائی سفارتکاری کے بدولت سعودی عرب ان ممالک سے اقتصادی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔
اشتہار
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جمعرات کے دن چین پہنچ گئے۔ اس دو روزہ دورے کے دوران وہ بروز جمعہ چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔ محمد بن سلمان ایک ایسے وقت میں یہ دورے کر رہے ہیں، جب سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی وجہ سے بالخصوص مغربی ممالک کی طرف سے سعودی عرب پر عالمی دباؤ برقرار ہے۔
ناقدین کے مطابق سعودی ولی عہد کے ان دوروں کے دوران جس طرح انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے، اس سے احساس ہوتا ہے کہ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل کے باوجود ریاض حکومت کے اتحادی ابھی بھی اس کے ساتھ ہی ہیں۔ یورپی ممالک خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے بعد بھارت میں بھی بن سلمان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا جب کہ چین میں بھی انہیں خصوصی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی قرار دی جا رہی ہے کہ محمد بن سلمان ان ممالک کے ساتھ زیادہ بہتر تجارتی تعلقات کے علاوہ وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
محمد بن سلمان کے چین پہنچنے پر وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ نامی عالمی تجارتی انفرا اسٹرکچر کا موضوع ایجنڈے میں اہمیت کا حامل رہے گا۔ جمعرات کے دن سعودی انڈسٹری منسٹر خالد بن عبدالعزیز نے چینی سرکاری نیوز ایجنسی سنہوا سے گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے پاس سرمایہ کاری کے لیے ایک خطیر رقم موجود ہے اور وہ اسے منافع بخش شعبہ جات میں لگانا چاہتا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ سعودی حکومت چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے مبینہ ریاستی ظلم پر خاموش ہی رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چینی حکومت نے ایک ملین سے زائد ایغوروں اور دیگر اقلیتی گروپوں کو ’حراستی کیمپوں‘ میں قید کر رکھا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات دراصل دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا ایک حصہ ہیں۔
خالد بن عبدالعزیز نے مزید کہا کہ سرمایہ کاری کے لیے چین ایک شاندار ملک ہے، جہاں ایک بڑی مارکیٹ ہے اور ساتھ ہی اس ملک میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول بھی سازگار ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے پاکستان کے دورے کے دوران بن سلمان نے اسلام آباد حکومت کے ساتھ بیس بلین ڈالر مالیت کے مختلف سمجھوتوں کو حتمی شکل دی تھی۔
بدھ کے دن سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ بھارت کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ نئی دہلی حکومت کے کے لیے سعودی عرب خام تیل کی سپلائی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اسی دوارن بن سلمان نے کہا کہ ان کا ملک بھارت میں مختلف شعبہ جات میں سو بلین ڈالر سے زائد مالیت کی سرمایہ کاری کے بڑے مواقع دیکھ رہا ہے۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔