پاکستان اور بھارت ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل
15 مارچ 2021
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری (SIPRI) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔
اشتہار
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پوری دنیا میں درآمدکیے جانے والے مجموعی ہتھیاروں کا ایک تہائی سے زیادہ امریکا نے فروخت کیااور اس نے اپنے تقریباً نصف ہتھیار مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمد کیے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی طرف سے پیر کے روز جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2016 سے سن 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت کا رجحان کم ہوتا دکھائی دیا جب کہ پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، چین اورجنوبی کوریا اسلحہ درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ایشیا اور اوشینیا ہتھیار درآمد کرنے والے سب سے بڑے خطے رہے۔ سن 2016سے سن 2020کے درمیان اس خطے کے ملکوں میں عالمی ہتھیاروں کا 42 فیصد درآمد کیا گیا۔
سپری کے سینیئر محقق زیمون ویزے مین کے مطابق، ”ایشا اور اوشینیا کے بہت سے ممالک میں یہ سوچ گہری ہو رہی ہے کہ اسلحے کی درآمد میں اضافے کی وجہ چین کی وجہ سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔"
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
سعودی عرب ہتھیار درآمد کرنے والوں میں سرفہرست
سپری کی رپورٹ کے مطابق سن 2011 سے سن 2015 کے مقابلے میں سن 2016 سے سن 2020 تک کے درمیان مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی درآمد میں سب سے زیادہ 25 فیصد کا اضافہ ہوا۔
سعودی عرب دنیا میں ہتھیار درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے ہاں ہتھیاروں کی درآمد میں 61 فیصد اضافہ ہوا جبکہ قطر میں ہتھیاروں کی درآمد میں 361 فیصد اضافہ ہوا۔
متحدہ عرب امارات نے پچھلے دنوں امریکا سے 23 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت یو اے ای امریکا سے پچاس ایف 35 جنگی طیارے اور 18مسلح ڈرونز خریدے گا۔
اشتہار
امریکا ہتھیار فروخت کرنے میں سب سے آگے
سن 2016 سے سن 2020 تک کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بھی ہتھیار فروخت کیے گئے، ان کا 37 فیصد امریکا نے فروخت کیا۔ امریکا نے 96 ملکوں کو ہتھیار برآمد کیے۔
سپری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکانے جتنے ہتھیار فروخت کیے، ان کا تقریباً نصف مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو فروخت کیا گیا۔ سن 2011 سے سن 2015 تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی برآمد میں پندرہ فیصد کا اضافہ بھی ہوا۔
سب سے زیادہ فضائی طاقت والی افواج
جدید ٹیکنالوجی اورجنگی میدانوں میں ہتھیاروں کی طاقت کے مظاہرے کے باوجود فضائی قوت جنگوں میں کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 2017ء میں سب سے زیادہ فضائی قوت رکھنے والی افواج کون سی ہیں؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Imago/StockTrek Images
امریکا
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگ بھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media/Pictures From History
روس
دنیا کی دوسری بڑی فضائی طاقت روس ہے، جس کے پاس تقریبا چار ہزار طیارے ہیں۔ ان میں 806 جنگی طیارے، پندرہ سو کے قریب اٹیک ایئر کرافٹ، گیارہ سو کے قریب آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے طیارے، لگ بھگ چار سو تربیتی طیارے اور چودہ سو کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 490 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
چینی فضائیہ کے پاس لگ بھگ تین ہزار طیارے ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت ور ترین فضائی فورس کے پاس تیرہ سو کے قریب جنگی طیارے، قریب چودہ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے 782طیارے، 352 تربیتی طیارے اور ایک ہزار کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے لگ بھگ دو سو اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/Y. Pan
بھارت
بھارتی فضائیہ کے پاس دو ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ دنیا کی اس چوتھی طاقت ور ترین فضائیہ کے پاس 676 جنگی طیارے، قریب آٹھ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے ساڑھے آٹھ سو طیارے، 323 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے سولہ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nv
جاپان
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں جاپان کا نمبر پانچواں ہے، جس کے پاس تقریبا سولہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 300 جنگی طیارے، تین سو اٹیک ائیر کرافٹ، سامان کی ترسیل کے لیے مختص پانچ سو کے قریب طیارے، 447 تربیتی طیارے اور کل 659 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹروں میں سے 119 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: KAZUHIRO NOGI/AFP/Getty Images
جنوبی کوریا
چھٹے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جس کی فضائیہ کے پاس لگ بھگ پندرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے 406 جنگی طیارے، ساڑھے چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص ساڑھے تین سو طیارے، 273 تربیتی طیارے اور لگ بھگ سات سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 81 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yonhap
فرانس
دنیا کی ساتویں بڑی فضائی طاقت فرانس کے پاس لگ بھگ تیرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تقریبا تین سو جنگی طیارے ہیں، اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ اس ملک کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص لگ بھگ ساڑھے چھ سو طیارے، قریب تین سو تربیتی طیارے اور تقریبا چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے پچاس اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Ena
مصر
دنیا کی آٹھویں بڑی فضائی فورس مصر کے پاس کل ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو سے زیادہ جنگی طیارے، چار سو سے زیادہ اٹیک ائیر کرافٹ،260 آمد ورفت کے لیے مختص طیارے، 384 تربیتی طیارے اور کل 257 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 46 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Bob Edme
ترکی
دنیا کی نویں بڑی فضائیہ ترکی کے پاس بھی ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے 207 جنگی طیارے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ ترکی کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص 439 طیارے، 276 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چار سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 70 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel
پاکستان
پاکستانی فضائیہ کا شمار دنیا کی دسویں فورس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس تقریبا ساڑھے نو سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو جنگی طیارے، قریب چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص261 طیارے، دو سو کے قریب تربیتی طیارے اور کل 316 ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 52 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Yu Ming Bj
10 تصاویر1 | 10
اسلحہ کے رجحان میں کمی
سپری کی رپورٹ کے مطابق سن 2016 سے سن 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت نسبتاً کم رہی۔ تحقیق کے مطابق ایک دہائی تک اسلحے کی فروخت میں اضافے کا رجحان جاری رہنے کے بعد اب اس میں کمی دیکھی گئی ہے۔
اسلحہ برآمد کرنے والے تین بڑے ملکوں امریکا، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اسلحے کی برآمد میں اضافہ ہوا لیکن روس اور چین کی برآمدات میں کمی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق روس ہتھیار برآمد کرنے والا دنیا کا دوسراسب سے بڑا ملک ہے جبکہ فرانس تیسرے نمبر پر ہے۔ تاہم بھارت کی طرف سے روسی ہتھیاروں کی درآمد میں کمی کی وجہ سے روسی ہتھیاروں کی برآمد میں کمی ہوئی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سن2001 سے لے کر سن 2005 تک کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف ملکوں کے درمیان اسلحے کے بڑے سودے نہیں ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
کووڈ کے اثرات، کچھ کہنا قبل از وقت
سپری کے مطابق کورونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھرمیں قومی معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں اور متعدد ممالک گہرے معاشی زوال کا شکار ہیں۔ لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اسلحے کی فروخت میں ہونے والی کمی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر محقق ویزے مین کا کہنا تھا، ”کووڈ انیس کے معاشی اثرات کے پیش نظر آنے والے برسوں میں بعض ممالک کو اپنے ہاں اسلحے کی درآمدات کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہو گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب سن 2020 میں کورونا وائرس کی وبا زوروں پر تھی، تب بھی ہتھیاروں کی تجارت کے بڑے معاہدے بہرحال کیے گئے۔‘‘