1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

پاکستان: آن لائن خریداری کے گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے

21 اپریل 2020

کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے پاکستان کے آن لائن کاروبار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ماسک اور سینی ٹائزر ہی نہیں پھلوں اور سبزیوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ غریبوں کو راشن بھی آن لائن سروس کے ذریعے ہی پہنچایا جا رہا ہے۔

Symbolbild Onlineeinkauf Lebensmittel
تصویر: Imago Images/Panthermedia/Artus Foto

لاک ڈاؤن کے دوران پاکستانی صارفین کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے روایتی طور پر عام دنوں میں سب سے زیادہ خریدی جانے والی اشیا یعنی فیشن والے کپڑے، موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور ڈیجیٹل گیجٹس وغیرہ کی خریداری سے مکمل طور پر ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن ہینڈ سینی ٹائزر اور صابن جیسی مصنوعات کی آن لائن سیل میں اٹھارہ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ تازہ سبزیوں اور پھلوں کی آن لائن خریداری میں نو گنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز، جس میں گراسری سے متعلقہ اشیاء آتی ہیں، کی سیل میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سے گاہک فلمیں، ای بکس، ورزش کا سامان اور ان ڈور کھیلوں کا سامان بھی خرید رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں آن لائن بزنس کے سب سے بڑے ادارے 'دراز ڈاٹ پی کے‘ کے چیف مارکیٹنگ آفیسر عمار حسن نے بتایا کہ ان کے ادارے کا پاکستان کی آن لائن مارکیٹ میں شیئر پچاسی فیصد سے زائد ہے۔ ان کے بقول ان کی سیلز میں اس وقت چھ گنا اضافہ ہو چکا ہے، ''اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی بہت منافع کما رہے ہیں، ہمیں جن مصنوعات پر زیادہ منافع ملتا تھا۔ ان میں زیادہ تر نان اسینشل آئٹمز تھیں، جیسےموبائل، لیپ ٹاپ یا فرنیچر وغیرہ۔ ان کی سپلائی پر ابھی بھی حکومت کی طرف سے پابندی ہے۔ ہم صرف ضروری اشیا، صفائی ستھرائی کا سامان اور گراسری آئٹمز وغیرہ ہی بیچ رہے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام اشیا دسمبر کے مہینے کے نرخوں پر بیچی جا رہی ہیں۔ ہم ان حالات میں اپنے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، تجارتی اشیا فراہم کرنے والا جو بھی کاروباری بندہ زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتا ہے ہم اسے اپنے پلیٹ فارم سے اتار دیتے ہیں۔‘‘

'دراز ڈاٹ پی کے‘ کے چیف مارکیٹنگ آفیسر عمار حسنتصویر: privat

عمار نے بتایا کہ کراچی کی ایک یونین کونسل کو کورونا وائرس کی وجہ سے سیل کیا گیا تو انہوں نے وہاں کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر وہاں آن لائن خریداری کی سروسز مہیا کیں، ''صرف یہی نہیں بلکہ ہم آئسولیشن میں بیٹھے ہوئے ایسے افراد، جو غریبوں کو راشن ڈلوانے کے خواہش مند ہیں، ان سے چار ہزار روپے فی کس لے کر راشن ان کی مرضی کے فلاحی ادارے جیسے ایدھی یا سیلانی وغیرہ کو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کو چاہیے کہ نان اسینشل آئٹمز کی آن لائن سپلائی پر سے بھی پابندی اٹھا لے کیونکہ آگے رمضان کا مہینہ آ رہا ہے، پھر عید کا تہوار بھی ہے، لوگوں کو بھی اشیا کی ضرورت ہے اور ہزاروں کاروباری لوگ جو ہمارے ذریعے اپنی اشیا بیچتے تھے، ان کا کام بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آن لائن ڈلیوری میں کورونا سے بچاؤ کے حوالے سے تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا جاتا ہے، اس لیے یہ محفوظ ہے، ''ہم اپنے ملازمین کا ٹمپریچر چیک کرتے ہیں، ان کو سینیٹائزرز اور ماسک دیتے ہیں اور ان میں سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہیں۔‘‘

عمار حسن نے بتایا کہ کورونا کے خوف کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے کرنسی نوٹوں کے ذریعے سامان کی ادائیگی بند کر دی ہے اور وہ ڈیجیٹل کارڈ کے ذریعے اب ادائیگیاں کر رہے ہیں، '' ہمارے ہاں بتیس فی صد کسٹمرز ایسے ہیں، جو کارڈز کے ذریعے پیمنٹ کرتے ہیں۔‘‘

ڈی ایچ اے لاہور کی رہائشی اسما نورین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آن لائن خریداری کے ذریعے میں اور میرے گھر والے محفوظ رہتے ہیں اور ہمیں رش والی منڈیوں میں نہیں جانا پڑتا۔‘‘  تاہم اسما کی پریشانی یہ ہے کہ ان کے بچوں کو عید اور رمضان کے لئے نئے کپڑوں کی ضرورت ہے اور آن لائن خریداری سے سائز کا اطمینان نہیں ہوتا۔ وہ چاہتی ہیں کہ کچھ دیر کے لئے بعض مارکیٹوں کو کھول دیا جانا چاہیے۔

احمد خان چیتے آن لائن ڈلیوری سروس کے بانی ہیں۔ ان کی کمپنی گھر میں بیٹھے لوگوں کو کھانا لا کر دینے، بل یا بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے جیسی سروسز مہیا کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں ان کا کام ابھی بھی بند ہے البتہ لاہور سمیت بعض بڑے شہروں میں ان کی کمپنی کام کر رہی ہے۔

یاد رہے پاکستان میں آن لائن بزنس بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اس بزنس کا پچپن فی صد حصہ پنجاب میں، چھتیس فی صد حصہ سندھ میں اور صرف پانچ فی صد حصہ خیبر پختونخواہ میں ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور بلوچستان میں اس کا حصہ دو دو فی صد ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں