پاکستان: اپنے ہی ملک میں در بدر ہونا کیسا ہے؟
20 جون 2020ہمارے گاؤں میں صرف دو گاڑیاں موجود تھیں، جو لوگوں کو گاؤں سے شہر اور شہر سے گاؤں لے جایا کرتی تھیں۔ نقل مکانی کا حکم اتنا اچانک تھا کہ کوئی بھی اپنے لیے کچھ انتظام نہ کر سکا، جن کی گاڑیاں تھیں وہ تو اس میں بیٹھ کر چلے گئے لیکن باقی رہ جانے والا پورا گاؤں بے یار و مددگار پیدل چلنے پر مجبور تھا۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ پورا گاؤں ایک ساتھ سفر کرے تاکہ طالبان سمجھ کر کسی کو مار نہ دیا جائے۔
تمام لوگ رات کے اوقات میں ہی سفر کرتے تھے کیوں کہ اس وقت مارٹر گولے برسانے والوں کو ہم نظر نہیں آتے تھے اور دن کے وقت ہم کسی پہاڑ کے ٹیلے پر پناہ لے لیتے تھے۔ کبھی کہیں سے گولا باری ہوتی تو کبھی کہیں سے، کھانہ، پانی اس چیز کا تو کسی کو ہوش ہی نہیں تھا، ہوش تھا تو صرف اس چیز کا کہ کسی طرح تمام گاؤں والوں کی جان بچ جائے۔ بچے ایسے سہم گئے تھے کہ جہاں بٹھاو، وہیں بیٹھے رہتے تھے۔ کھیل کود کیا ہے ان کی جانے بلا! اور اگر کوئی بچہ کھیلنا بھی چاہتا تو کیسے؟ کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی تو کسی کا پاؤں، جو بچ گیا تھا وہ تھی چند اکھڑتی ہوئی سانسیں اور زندہ رہنے کی امید!
سات دہائیوں سے چودھری اپنے چوکیدار پال رہا ہے!
بے سر و سامانی کے عالم میں ہم لوگ گیارہ دن تک پیدل چلتے رہے پھر جا کر کہیں ہم باجوڑ پہنچے، وہاں پہنچنا ایک نیا چیلنج تھا جن لوگوں کے رشتہ دار وہاں موجود تھے انہوں نے تو ان کے ہاں پناہ لے لی لیکن جن کا کوئی نہیں تھا ان کا صرف اللہ تھا، جس کے سہارے وہ لوگ کھلے آسمان تلے نا جانے کتنی راتیں سوتے رہے۔
کھانے پینے کا انتظام تو وہاں سرے سے ہی نہیں تھا۔ پورے پاکستان میں شاید کسی کو وزیرستان سے آئے لوگوں سے ہمدردی بھی نہیں تھی۔ چار دن بعد ایک این جی او نے ہمیں کھانا اور رہنے کے لیے شیلٹر دیا۔ ایک وقت میں بارہ لوگوں کے لیے صرف دو پلیٹ سالن ملتا تھا، ہم چرواہے تھے، اپنے علاقے میں جی بھر کے کھاتے تھے اور عزت سے رہتے تھے۔ اس نئی جگہ پر نہ کھانہ تھا نہ سر چھپانے کی جگہ اور عزت! وہ کس کو یاد تھی؟
چھ ماہ تک لوگ وہاں رہتے رہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہ آئی۔ سب نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹھکانے ڈھونڈے کام تلاش کیا تاکہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
نئی دہلی سے کشمیر تک سفر کی کہانی
ہم چھ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ میں سب سے بڑا تھا ذمہ داری بھی زیادہ تھی، ڈاکٹر بننا چاہتا تھا لیکن حالات نے اس قابل نہ چھوڑا کہ پڑھائی جاری رکھ سکوں، چنانچہ چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرنے لگا کہ کسی طرح بہن بھائیوں کے کام آجاوں۔
ہر انسان شام ہوتے ہی گھر کی طرف لوٹنے کی کرتا ہے لیکن ہمارے لیے گھر کا تصور تو اسی وقت ختم ہو گیا تھا، جب ہم نے اپنا علاقہ گرگرے چھوڑا تھا، جب آئی ڈی پیز بن کر باجوڑ آئے تو روز ہی قریبی دکان پر جا کر میں سارے اخبار پڑھتا تھا کہ شاید ہمارے علاقے کی کوئی خیر خبر آئے۔ ٹماٹر مہنگا ہونے کی خبر تو ہوتی تھی لیکن ہم قبائلیوں کا خون کتنا سستا ہو گیا، اس کی خبر پہلے کیا آخری صفحے پر بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس دن فیصلہ کیا کہ میں صحافی بن کر اپنے لوگوں کی آواز بنوں گا لیکن اب دیکھتا ہوں کہ یہاں تو آزادی رائے کسی کو حاصل نہیں۔
ہم یہاں اپنے گاؤں سے دور بیس تیس ہزار کی نوکری میں بلکل خوش نہیں ہیں، آپریشن سے پہلے بھی ہمارے علاقے میں امن ہی تھا، ہمیں ہمارا علاقہ، ہمارا امن واپس چاہیے۔ حکومت نے ہماری کسی طرح کوئی بھی مدد نہیں کی، ہم نے سنا تھا کہ آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے چار چار لاکھ ملے ہیں لیکن ہمیں ایک روپیہ نہیں ملا ۔ اگر چار لاکھ ہمیں مل بھی جائیں تو اس میں ہم اپنا گھر تعمیر کر کے وہاں رہ نہیں سکتے۔ میں یہاں رہ کر کوئی نوکری کرنے کی بجائے اپنے علاقے میں رہ کر بچوں کو پڑھانے کو ترجیح دوں گا لیکن ہمیں ایسا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ ہمیں ہمارے اپنے ہی علاقے سے در بدر کر دیا گیا۔
ہم کتنا ہی خود کو مصروف رکھیں، کتنا ہی کام کا بوجھ خود پر ڈال کر رکھیں، جب وہ قیامت کی رات یاد آتی ہے، جب ہمیں اپنا گھر چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں مہاجر بننا پڑا، ایک اضطراب ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی دل میں گھر کر لیتی ہے۔ عابد اللہ محسود اپنی کہانی سناتے ہوئے نہ جانے کتنی بار فرط جذبات سے روئے نہ جانے کتنی بار اپنی محرومی سہہ گئے۔