1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ایک بار پھر عدالتی بحران کی زد میں

14 فروری 2010

''حکومت عدلیہ کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح ہے'', سپریم کورٹ کے وکیل بابر بلال کی کشور مصطفیٰ کے ساتھ خصوصی گفتگو۔

تصویر: Abdul Sabooh

ججوں کی تقرری کے معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھارہ فروری کو وزارت قانون کے ایڈیشنل سیکریٹری کو مقدمے کی سماعت کے لئے طلب کر لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایک بار پھر عدالتی اور آئینی بحران اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک سینئر جج کی تقرری کے معاملے پر اٹھنے والا تنازعہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ تصادم کا باعث بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

حالیہ تنازعہ اُس وقت اٹھا جب صدر زرداری نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے نامزد امیدوار کی سپریم کورٹ کے لئے تقرری کو مبینہ طور پر نظر انداز کر تے ہوئے ایک دوسرے سینئیر جج کو اس عہدے کے لئے نامزد کرنے کا فیصلہ سنایا۔

صدر مملکت آصف علی زرداریتصویر: AP

ہفتے کی شام کو عدالت عظمیٰ نے ہنگامی طور پر ایک تین رکنی بنچ تشکیل دینے کا اعلان کیا جس نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے اور ان کی جگہ جسٹس ثاقب نثار کو قائم مقام صوبائی چیف جسٹس مقرر کرنے کے صدارتی احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے معطل کرنے کا فیصلہ سنا دیا، ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کے لئے 18 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔

ان معاملات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل بابر بلال نے الزام عائد کیا کہ حکومت اپنی پسند کے ججز کو ہائی کورٹ میں اپوائنٹ کروانا چاہ رہی تھی جس میں حکومت کو مشکلات کا سامنا تھا۔

ان کے بقول ، '' لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے ان اپوائنمٹس کے لئے ناموں کی جو فہرست بھیجھی تھی وہ حکومت کو منظور نہیں تھی اس لئے اُس لسٹ کو پہلے گورنر پنجاب نے اپنے پاس روکے رکھا اسکے بعد لاء منسٹری میں پہنچنے کے بعد اُس فہرست کو وہاں روک لیا گیا''۔ بابر بلال نے کہا کہ، '' حکومت نے عدلیہ کے اندر ہی ایک بار پھر عدم اتحاد پیدا کروانے کی کوشش کی اور خود ہی چند ججز کی تقرری کا اعلان کر دیا، جبکہ پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری آرٹیکل 177 کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے کی جائے گا''۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدریتصویر: AP

اس سوال کے جواب میں کہ آخر حکومت نے اتنا بڑا قدم کیوں کر اُٹھایا بابر بلال کا کہنا تھا کہ، '' غالباً حکومت یہ توقع کر رہی تھی کہ اس کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے بعد عدالت اسے تسلیم کر لے گی اور یہ ججز حلف لے لیں گے''۔ تاہم بابر کا کہنا ہے کہ ہوا اس کے بر عکس کیوں کہ ان کے بقول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز آپس میں متحد ہیں۔

سپریم کورٹ کے وکیل بابر بلال کے مطابق'' اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس معاملے پر خود قدم اٹھایا ہے اور اس کی طرف سے صدارتی احکامات کو کلعدم قرار دینے کا عمل بالکل آئین کے مطابق ہے''۔ بابر بلال کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک گوناگوں اندرونی اور بیرونی دباؤ اور مسائل سے دو چار ہے، اس قسم کے عدالتی بحران ملک کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ بلال نے کہا'' 18 فروری کو اس کیس کی سماعت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، صدر کا عہدہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، آئندہ چند دن ملک کے لئے اہم ہوں گے''۔

سپریم کورٹ کے وکیل بابر بلال کی ڈوئچے ویلے کے ساتھ تفصیلی گفتگو سننے کے لئے آڈیو فائل پر کلک کیجئے۔

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں