1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، بات کرو یا مرو تک پہنچ چکی ہے

4 فروری 2023

تمام تر شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کو 1.2 بلین ڈالر کی اگلی قسط جاری کر بھی دے تب بھی معیشت کو اتنا ہی آرام ملے گا جتنا لوکیمیا کے مریض کو پیناڈول سے کچھ گھنٹے کے لیے نصیب ہو جاتا ہے۔

وسعت اللہ خانتصویر: privat

جو اصلاحات بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھیں، ان اصلاحات کو آئی ایم ایف اب بازو مروڑ کے کروانا چاہ رہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جیسے ہی گرفت ڈھیلی ہوئی حکمران اشرافیہ کی زندگی پھر سے ادھار کو آمدنی سمجھنے کی لت کی جانب چل پڑے گی۔

اس وقت پاکستان میں ٹیکس کی مد میں ریاست کو جو کچھ بھی مل رہا ہے، اس کا اسی فیصد بلاواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں مل رہا ہے۔ کم و بیش سب قابلِ ٹیکس شہری و شعبے ٹیکس چھپانے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی خوشی خوشی براہِ راست ٹیکس دینے کو تیار نہیں سوائے ان افراد، ملازمین اور اداروں کے، جن کا ٹیکس یا تو پیشگی یا پھر براہِ راست زبردستی کاٹ لیا جاتا ہے۔

مگر اب یہ چمتکار بھی چمک کھو چکا ہے۔ پہلے، جو خسارہ بیرونِ ملک سے قرض ادھار لے کر یا مختلف ممالک کو کرایے کی خدمات فراہم کر کے پورا کر لیا جاتا تھا، اب وہ خسارہ بھی اربوں کی حدود سے نکل کے کھربوں میں داخل ہو چکا ہے۔

ان حالات میں ملک کا انتظام بھی، جیسے کیسے چلانا ہے، ضرورت سے زیادہ حساس اداروں کے مالی مفادات کو بھی بہت زیادہ نہیں چھیڑنا، عوام کو بھی اس سراب میں رکھنا ہے کہ ان کا کمر توڑ معاشی بوجھ ایک آدھ کلو کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

بیرونی قرضوں کی بیس سے بائیس ارب ڈالر کی واجب الادا قسطوں کو بھی ”کچھ دو کچھ ٹالو کچھ کو تھوڑا اور آگے کرا لو‘‘ کی بنیاد پر موجودہ مالی سال میں ہی جھیلنا ہے۔ پھر بھی اس مد میں اگلے چھ ماہ میں آٹھ ارب ڈالر تو چاہیے ہی چاہئیں۔ اوپر سے افراطِ زر، روپے کی تیز رفتار بے قدری اور دہشت گردی کی تازہ لہر سے نمٹنے کا اضافی مالی بوجھ بھی آن پڑا ہے۔

چلیں مان لیا کہ آئی ایم ایف نے اگلے ہفتے ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر دے دیے اور اس کی بنیاد پر چین، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب نے بھی، جو تین تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں اس شرط پر رکھوائے ہیں کہ انہیں بس دیکھنے کی اجازت ہے چھونے کی نہیں۔ یہ کاغذ پر زرِمبادلہ کے قومی ذخائر میں تو دکھائے جا سکتے ہیں مگر دیگر بینکوں، مالیاتی اداروں  کی قسطوں یا بانڈز کی ادائیگی ان سے نہیں ہو سکتی۔

یعنی فرض کریں کہ مل ملا  کے لگ بھگ بارہ بلین ڈالر  اگلے چھ ماہ کے دوران آ گئے۔ اب ان میں دو ارب ڈالر ماہانہ تارکینِ وطن کا پاکستان بھیجا جانے والا پیسہ بھی جوڑ لیں اور تقریباً ایک ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس بھی جوڑ لیں۔ گویا چھ ماہ میں آپ نےکسی نہ کسی طرح  پندرہ بلین ڈالر کھاتے میں دکھا دیے۔

اب ان جمع کردہ پندرہ بلین ڈالر میں سے آٹھ بلین ڈالر قسطوں کی ادائیگی، تین بلین ڈالر درآمدات کی ایل سیز کی ادائیگی کی مد میں رکھ لیں اور باقی پیسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے دو کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرضے اور لگ بھگ مزید دو کھرب روپے روزمرہ انتظامی و دفاعی اخراجات و ناگہانی خرچوں کی مد میں رکھ لیں۔

جو باقی بچا، وہ جون میں بھی اتنا ہی ہو گا جتنا آج ہے۔ یعنی اسٹیٹ بینک کے کھیسے میں وہی تین ارب ڈالر، جو آج پڑے ہوئے ہیں۔ چھ ماہ بعد بھی یہی کیفیت ہو گی، جون کے بعد کیا کریں گے؟

چنانچہ اب یہ سوچا گیا ہے کہ اضافی آمدنی کے لیے متحدہ عرب امارات کی دو بڑی کمپنیوں ( ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ اور انٹر نیشنل ہولڈنگز ) سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے منافع بخش یا خسارہ زدہ اداروں کے مالکانہ حصص خریدنے پر راضی کیا جائے۔ ان میں آئل اینڈ گیس کارپوریشن ، پاکستان پٹرولیم، نیشنل بینک جیسے منافع بخش اور پی آئی اے اور نیشنل شپنگ جیسے خسارہ زدہ ادارے فی الحال برائے فروخت حاضر ہیں۔

نیز کراچی، لاہور اور اسلام آباد  کے منافع بخش ایئرپورٹس کا انتظام و انصرام بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کے لیے مکمل آمادگی ہے تاکہ اس کے عوض تین سے چار ارب ڈالر اضافی حاصل ہو سکیں۔

اقتصادی تنہائی رفتہ رفتہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے پیارے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے غریبوں کو لنگر کھلانے والے اور بے گھروں کو پناہ دینے والے سابق حکومت کے شیلٹر ہومز پروجیکٹ کا انتظام سنبھالنے والے فلاحی ادارے سیلانی ٹرسٹ کی یہ تجویز مان لی ہے کہ تین چار مقامی مخیر ادارے مل کے ریاستِ پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے کی خاطر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے صفر منافع پر پانچ برس کے لیے دو ارب ڈالر ڈیپازٹ لینے کی مہم چلائیں، انشااللہ آخرت میں نفع ہو گا۔

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیرونِ ملک پاکستانی آخر کتنا کریں گے؟ انیس سو اٹھانوے میں ان کے سامنے نواز شریف کی دوسری حکومت نے ”قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کی خاطر چندے کے لیے جھولی پھیلائی اور جو اربوں روپے جمع ہوئے، اللہ جانے کہاں گئے؟

پھر عمران خان نے وزیرِ اعظم بننے سے پہلے تصور کر لیا کہ ان کی ایک پکار پر بیرونِ ملک پاکستانی اتنا پیسہ دے دیں گے کہ آئی ایم ایف کی پشت پر لات مار دی جائے گی مگر ایسا تو نہیں ہوا؟

پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ سنا ہے کہ دس ارب روپے جمع ہو کر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پڑے ہیں۔ خدا معلوم چیف جسٹس کو کس نے پٹی پڑھائی تھی کہ یہ ڈیم، جس پر لاگت کا تخمینہ اٹھائیس ارب ڈالر ہے، بیرونِ ملک پاکستانی ایک ماہ میں جمع کر لیں گے۔

اب اسحاق ڈار سیلانی ٹرسٹ کو ان پردیسی پاکستانیوں کے پیچھے لگنے کو کہہ رہے ہیں اور خود ان بے چاروں کی حالت یہ ہے کہ پہلے تین ارب ڈالر ماہانہ پاکستان بھیج رہے تھے، اب وہ دو ارب ڈالر ہی بھیج پا رہے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ سب کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، پاؤں پڑ جاؤ مگر، جو کرنے کا کام ہے، وہ اگلی حکومت کے لیے چھوڑ دو۔ قانونی، معاشی، سماجی، سیاسی، انتظامی اور تعلیمی ڈھانچے کی بنیادی سرجری کی کسی میں جرات نہیں۔

اب تو راستے بھی تیزی سے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کرو یا مرو والا مرحلہ ہے، ورنہ انارکی اور طالبان تو نکڑ پر کھڑے ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں