پاکستان: بارہ طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کردیا گیا
8 مارچ 2009طالبان عسکریت پسندوں کی یہ رہائی حال ہی میں حکومت اور طالبان کے درمیان کیے گئے ایک معاہدے کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے۔ صوبہِ سرحد کے مالاکنڈ ڈویژن میں واقع شورش زدہ علاقے سوات میں حکومت اور طالبان نفاذِ شریعت سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کو ’نظامِ عدل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت جہاں عسکریت پسند ہتھیار پھینکنے کے پابند ہیں وہاں حکومت حراست میں لیے گئے طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کرنے کی بھی پابند ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں کی یہ رہائی ممکنہ طور پر مغربی ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے جن کی افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاص طور پر افغانستان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عسکری اور دفاعی مبصرین کی رائے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقے افغانستان میں شورش کا منبع ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کی قیادت کے اسی علاقے میں روپوش ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا جاتا رہتا ہے۔
پاکستانی حکّام کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں کو ہفتے کی شب رہا کیا گیا۔ حکّام کے مطابق یہ ان کی جانب سے طالبان کے لیے خیر سگالی کا ایک پیغام ہے اور ان کو امید ہے کہ اس کے جواب میں طالبان سوات میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی زمہ داری پوری کریں گے۔
دریں اثناء پاکستانی حکّام نے بتایا ہے کہ مہمند ایجنسی کے علاقے میں طالبان نے ایک جھڑپ میں دس پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا ہے۔ ایک حکومتی اہلکار اور تین پولیس اہلکاروں کو طالبان نے یرغمال بنا نے کے بعد مار کر پھینک دیا۔
پاکستانی صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ نہیں بلکہ معتدل مذہبی رہنماؤں سے سوات میں مذاکرات کررہی ہے۔ واضح رہے کہ سوات میں طالبان رہنما صوفی محمّد نے حکومت کو پندرہ مارچ تک کی مہلت دی ہے کہ ان کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے جائیں۔
سوات کے علاقے میں اسکولوں اور کاروباری مراکز کے دربارہ کھل جانے کے بعد بھی صورتِ حال معمول کے مطابق نہیں ہے اور علاقے کے لوگ اور سیاسی مبصرین حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کے دیر پا ہونے پر متشکک ہیں۔