پاکستان ’باغی‘ گولن کے زیر انتظام اداروں کو بند کرے، ترکی
23 جولائی 2016پاکستانی دارالحکومت میں میڈیا کے نمائندوں کو ترکی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ترک سفیر نے کہا، ’’ہم نے تمام دوست ممالک سے کہا کہ کہ وہ فتح اللہ گولن (مرکزی تصویر میں) کے گروپ کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ترک حکومت کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ حال ہی میں صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے گولن کی تنظیم کا ہاتھ تھا۔
فتح اللہ امریکا میں مقیم ترک مبلغ ہیں جنہیں ایردوآن کی حکومت دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ گولن کے قریبی ذرائع نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ بغاوت کے پیچھے ان کی تنظیم کا ہاتھ تھا۔
پاکستان میں گولن کی تنظیم کتنی متحرک ہے؟
صادق بابر کاکہنا ہے کہ گولن تنظیم کی پاکستان میں موجودگی خاصی وسیع ہے۔
پاکستان میں گولن کی تنظیم کے زیر انتظام اکیس اسکول اور ایک رومی فاؤنڈیشن کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے کئی دہائیوں سے یہاں فعال ہیں۔
پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کے مطابق حکومتی ذرائع سے اسے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی حکام نے گولن کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے امکانات پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایردوآن ’سولین مارشل لاء‘ کی جانب گامزن
ترک سفیر نے بہ بھی بتایا کہ انقرہ میں حکام نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گولن کو ترکی کے حوالے کر دے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اس کے بارے میں غور کیا جائے گا۔
دوسری جانب ترک حکومت نے اپنے ملک میں بھی گولن سے وابستہ افراد اور تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ صدر ایردوآن کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے تحت دو ہزار تین سو اکتالیس اداروں، جن میں اسکول، فلاحی ادارے اور ہسپتال شامل ہیں، کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کارروائی کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جانا باقی ہے، تاہم ایردوآن کی جماعت اے کے پی کی وہاں اکثریت کی بِنا پر اس کی منظوری تقریباً یقینی ہے۔
ایردوآن ملک میں کم از کم تین ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی لگانا چاہ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے اس کی منظوری بھی جلد متوقع ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی ناقدین کے مطابق نکام فوجی بغاوت کی آڑ میں صدر ایردوآن ترکی میں مطلق العنانیت کو فروغ دے رے ہیں اور ’سولین مارشل لاء‘ پر عمل پیرا ہیں۔
دریں اثناء حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیے جانے والے کئی ہزار فوجیوں میں سے بارہ سو کو رہا کر دیا ہے۔