1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

'پاکستان بھارتی میزائل پر جوابی کارروائی کرنے ہی والا تھا'

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
16 مارچ 2022

جب پاکستان میں بھارتی میزائل گرا تو اسلام آباد نے بھی جوابی حملہ کرنے پر غور کیا، تاہم اس نے فوری طور پر ایک غلطی بھانپ لی۔ میزائل سے پاکستان میں بعض رہائشی املاک کو نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

Symbolbild Philippinen kaufen Raketensystem von Indien für 375 Millionen Dollar
تصویر: OLGA MALTSEVA/AFP/Getty Images

امریکا کے ایک معروف میڈیا ادارے کا دعوٰی ہے کہ گزشتہ ہفتے جب ایک بھارتی برہموس میزائل پاکستان کے اندر گرا تو پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرنے کا ارادہ کر لیا تھا تاہم اس سے پہلے کہ کوئی اقدام کیا جاتا پاکستانی حکام کو ابتدائی تجزیے سے فوری طور پر اس بات کا علم ہو گيا کہ اس میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔

امریکا کے معروف میڈیا ادارے بلومبرگ نے بعض سینیئر حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ میزائل گرنے کے فوری بعد پاکستان نے بھی جوابی حملے کے طور پر اسی قسم کا ایک میزائل بھارت کے اندر فائر کرنے کی تیاری کر لی تھی، تاہم فوری طور پر انہیں اس میں کچھ غلط ہونے کا پتہ چل گيا اور اس طرح جوابی حملہ نہیں کیا گيا۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کا برہموس میزائل بغیر وار ہیڈ کے تھا اور شاید اسی وجہ سے پاکستان فوری طور جوابی حملے سے باز رہا۔

بلومبرگ کا دعوٰی ہے کہ بھارتی فضائیہ نے دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پنجاب کے امبالا سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے برہموس کروز میزائل کو فائر کیا تھا جس سے پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں کچھ رہائشی املاک کو نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

یہ واقعہ گزشتہ ہفتے بدھ کے روز پیش آيا تھا تاہم بھارت نے اس بارے میں پاکستان کو آگاہ کرنے کے لیے اس ہاٹ لائن کا استعمال نہیں کیا جو دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان ایسے واقعات سے باخبر رکھنے کے لیے پہلے سے قائم ہے۔

بلومبرگ کے مطابق پاکستان کو آگاہ کرنے کی بجائے بھارتی فضائیہ کے حکام نے فوری طور پر اپنے میزائل سسٹم کو بند کر دیا تاکہ کوئی دوسرا میزائل لانچ نہ ہو سکے۔

اس واقعے کے دوسرے روز پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ پاکستانی ایئر فورس نے بھارتی ریاست ہریانہ کے مقام سرسا سے لیکر  پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں میں لینڈنگ کے مقام تک میزائل کے پرواز کے راستے کا پتہ لگا لیا ہے۔

تصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

بھارت میں میڈیا نے اس حوالے سے حکام سے بہت سے سوالات کیے تاہم کوئی جواب نہیں آیا اور پھر دو روز بعد نئی دہلی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ غلطی سے فائر ہو گیا تھا جس کے لیے اسے افسوس ہے اور اس کی تحقیقات کا حکم دیا گيا ہے۔

پاکستان کا مطالبہ اور بھارت کی سرد مہری

گزشتہ روز بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمان میں غلطی سے میزائل فائر ہونے اور پھر پاکستان میں گرنے کی واقعے کی تفصیل بتائی تھی اور کہا تھا کہ بھارت میں ہتھیاروں کے تحفظ کا نظام کافی موثر ہے۔ انہوں نے اس واقعے کی تفتیش کی بات بھی دہرائی۔

لیکن بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کے اس مطالبے پر کچھ بھی نہیں کہا، جس میں اس پورے واقعے کی مشترکہ جانچ کی بات کہی گئی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ حکومت اس واقعے کے بعد میزائل کے آپریشنز، دیکھ بھال اور معائنہ کاری کے لیے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کا جائزہ لے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’بھارت اپنے میزائل سسٹم کی حفاظت اور سلامتی کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے اور تحقیقات کے ذریعے اگر اس میں کوئی کمی پائی گئی تو اس کو درست کر دیا جائے گا۔‘‘

 پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاہم منگل کے روز ہی راج ناتھ سنگھ کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ وہ ان کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں اور چونکہ میزائل پاکستان میں گرا ہے اس لیے اس کی مشترکہ تفتیش کی ضرورت ہے۔

قریشی کا کہنا تھا،’’اگر پاکستان کی فضائیہ اس کی کڑیوں کو بھارت کے اندر سے ہی نہ اٹھاتی اور اس پر اسے ویسا ہی جواب دے دیا جاتا، تو اس کے نتائج انتہائی سنگین نکل سکتے تھے۔‘‘

بھارت نے نو مارچ 2022ء کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ میزائلوں کی معمول کی نگرانی کے دوران تکنیکی خرابی کی وجہ سے حادثاتی طور پر ایک میزائل فائر ہو گیا اور وہ پاکستان میں تقریباً 124 کلو میٹر اندر تک جا گرا۔ 

 بھارت کا کہنا تھا، ''معلوم ہوا ہے کہ یہ میزائل پاکستان کے ایک علاقے میں گرا۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ تاہم یہ سن کر اطمینان بھی ہوا کہ اس حادثے میں کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘‘

 بھارتی میڈیا میں لیکن اس حوالے سے بہت سی چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں۔ اس طرح کی بھی باتیں کہی جا رہی ہیں کہ کیا بھارت نے پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی قوت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے اور آخر میزائل کے اتنے طویل فاصلے تک پرواز کرنے کے باوجود اسے کیوں نہیں روکا جا سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں