پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تناؤ پر امریکا کی تشویش برقرار ہے کیونکہ جوہری طاقت رکھنے والی ان دونوں ہمسایہ ریاستوں کی فوجیں سرحدوں پر الرٹ ہیں۔ تین ہفتے قبل دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات انتہائی بڑھ گئے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تناؤ پر امریکی تشویش ابھی بھی برقرار ہے۔ اس اہلکار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان نے ملک میں موجود ان مذہبی شدت پسندوں کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں جنہوں نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں بھارتی فورسز کے 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہو گئے تھے اور یہی معاملہ دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ کا سبب بنا تھا اور دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر لے آیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس اہلکار نے نام ظاہر کرنے کی شرط کے ساتھ صحافیوں کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا، ’’اگر پاکستان ایسے گروپوں کے خلاف پائیدار اور مخلصانہ کوششیں نہیں کرتا اور اس صورت میں کوئی اور دہشت گردانہ حملہ ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے انتہائی زیادہ مسائل کی وجہ بنے گا اور یہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں دوبارہ اضافے کا سبب ہو گا۔‘‘
خیال رہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری پاکستان میں وجود رکھنے والی کالعدم تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی۔ اس واقعے کے تناظر میں بھارت نے 26 فروری کو پاکستانی علاقے میں ایک فضائی حملہ کیا تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں جیش محمد کے ایک تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا گیا تاہم پاکستانی حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بالاکوٹ کے قریب ایک ویران جگہ پر اپنے بم گرائے اور ان میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اس واقعے کے اگلے ہی روز پاکستانی طیاروں نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جوابی کارروائی کی جس کے بعد جنگی طیاروں کی فضا میں جنگ یا ڈاگ فائٹ کے نتیجے میں ایک بھارتی طیارے کو مار گرایا گیا اور اس طیارے سے بچ نکلنے والے بھارتی پائلٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔
ان واقعات کے بعد جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات کافی بڑھ گئے تھے تاہم امریکی حکومت نے دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت کے ساتھ پاکستان اور بھارت دونوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ کشیدگی میں اضافے سے باز رہیں۔
دونوں ممالک کی طرف سے کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اقدامات کیے گئے جن میں پاکستانی حکومت کی طرف سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی بھارت کو واپسی کا عمل بھی شامل ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ کی تشویش ابھی بھی موجود ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے درجنوں شدت پسندوں کو گرفتار کر کے ان کے اثاثے ضبط کر لیے ہیں۔ گرفتار کیے جانے والوں میں جیش محمد کے بعض رہنما بھی شامل ہیں۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔