پاکستان بھارت کے خلاف ’جوابی اقدامات‘ پر مجبور ہے، نواز شریف
23 اکتوبر 2015جمعے کے روز واشنگٹن میں امریکی ادارے برائے امن سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت کی جانب سے عسکری قوت میں مسلسل اضافہ اور پاکستان کے ساتھ بات چیت سے اجتناب کی وجہ سے اسلام آباد حکومت ’جوابی اقدامات‘ اٹھانے پر مجبور ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’مذاکرات مسترد کرنا اور ہتھیاروں میں مسلسل اضافہ، بدقسمتی سے ایسے میں متعدد عالمی طاقتوں کی بھارت کو حاصل معاونت نے ایک مشکل عسکری صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان مجبور ہو گیا ہے کہ وہ متعدد جوابی اقدامات کرے، تاکہ اس کی موثر جوابی کارروائی کی صلاحیت برقرار رہے۔‘‘
نواز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات نہ ہونے کی وجہ اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا الزام بھارت پر عائد کیا۔ نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ بھارتی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے پاکستان کے خلاف مسلسل سخت بیانات دیے جا رہے ہیں۔
نواز شریف نے جمعرات کے روز امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے جمعے کے روز انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے اور امریکا اس سلسلے میں پاکستانی موقف کو سمجھنے کی کوشش کرے، تاکہ خطے کے مفادات اور علاقائی سلامتی یقینی بنائی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں موجودہ صورت حال کا تفصیلی جائزہ اور پاکستانی موقف کی جانب زیادہ توجہ واشنگٹن کے جنوبی ایشیا میں تعیمری کردار کو موثر بنائے گی اور علاقے میں استحکام کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کر پائے گی۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نواز شریف نے اپنے خطاب میں بھارت کے خلاف اٹھائے جانے والے ’جوابی اقدامات‘ کی تفصیلات نہیں بتائیں، تاہم گزشتہ روز صدر اوباما نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا عمل روکے، کیوں کہ اس سے علاقائی خطرات اور عدم استحکام میں اضافہ ہو سکتا ہے۔