1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

پاکستان: آئی ایم ایف کا 1.1 ارب ڈالر کا قرض دینے کا اعلان

30 اگست 2022

یہ رقم سن 2019 کے بیل آؤٹ قرض کا ہی ایک حصہ ہے، تاہم کچھ وقت پہلے اس کی ادائیگی روک دی گئی تھی۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے سبب اب پاکستان بھارت کے ساتھ دوبارہ تجارت شروع کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
تصویر: Amer Hussain/REUTERS

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان کو 1.17 بلین ڈالر کے فنڈز جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، کیونکہ ملک  اس وقت سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس بحران کو "ماحولیاتی تباہی" قرار دیا ہے۔

اس تباہی کے دوران آئی ایم ایف نے جو رقم دینے کا وعدہ کیا ہے وہ اصل میں 2019 کے حکومت کے لیے بیل آؤٹ قرض کا ہی حصہ ہے، تاہم عمران خان کی سابقہ حکومت نے توانائی سے متعلق رعایات میں کمی کرنے کے آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا نہیں کیا تھا اس لیے ادارے نے قرض کی ادائیگی روک دی تھی۔

پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں کہا، "الحمدللہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے ہمارے ای ایف ایف پروگرام کی بحالی کی منظوری دے دی ہے۔" بعد میں انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے پروگرام میں مزید ایک ارب ڈالر کی توسیع پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔

کیا پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا،  جب منگل کے روز ہی اقوام متحدہ نے پاکستان کے لیے ہنگامی طور پر امداد کے لیے 160 ملین ڈالر کی اپیل کی ہے۔

پاکستانی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا خیال ہے کہ سیلاب سے آنے والی تباہی کی تعمیر نو پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آسکتی ہے۔

آئی ایم ایف نے اخراجات میں کمی کا خیر مقدم کیا

وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت کو حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قیمتوں میں تین بار اضافہ کرنے پر بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر کے اپنی پیشرو  حکومت کی تمام سبسڈی کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے کا کام کیا ہے۔

حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں سیلاب کا کوئی خاص ذکر نہیں ہے تاہم رقم فراہم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اخراجات میں کمی کا خیر مقدم کیا۔

حالیہ ہفتوں میں ہزاروں ہیکٹر اراضی پر کھڑی فصلوں کی تباہی کے بعد ملک میں خوراک اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیںتصویر: Zahid Hussain/AP/dpa/picture alliance

آئی ایم ایف کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ سیح نے کہا، "منفی بیرونی حالات نے پاکستانی معیشت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ یوکرین کی جنگ اور  بعض گھریلو چیلنجوں کی وجہ سے بھی اس کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "میکرو اکنومک استحکام کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے، عدم توازن کو دور کرنا، جامع اور پائیدار ترقی کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی اصلاحی پالیسیوں اور اصلاحات کا مستقل نفاذ بہت ضروری ہے۔"

پاکستان: سیاسی یا معاشی بحران، ترجیحی حل کس کا؟

بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے پر غور

سیلاب کے سبب زبردست تباہ کاریوں کی صورت حال ہی میں گزشتہ روز پاکستانی حکام نے بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کا بھی اشارہ دیا تھا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت پاکستان ملک میں فصلوں کی تباہی کے بعد لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے بھارت سے سبزیاں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی 'درآمد پر غور‘ کر سکتی ہے۔

حالیہ ہفتوں میں ہزاروں ہیکٹر اراضی پر کھڑی فصلوں کی تباہی کے بعد ملک میں خوراک اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔

 وزیر خزانہ کا کہنا تھا  کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق تقریباً 10 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی عروج پر تھی اور اس تازہ آفت سے اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے سن 2019  میں اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ  کر دیا گیا تھا، جس کے بعد پاک بھارت تعلقات ایک نئی نچلی سطح پر آ گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تلخی بڑھی اور اسلام آباد نے سفارتی تعلقات کو محدود بنانے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت معطل کر دی تھی جبکہ سرحد پار آمد ورفت بھی روک دی گئی تھی۔

تاہم حکومت پاکستان نے کووڈ انیس کی وبا پھوٹنے کے بعد بھارت سے دوا سازی کے لیے مصنوعات کی درآمد کی اجازت دے دی تھی۔

گزشتہ سال مارچ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا اعلان کیا تھالیکن اگلے ہی دن یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بین الاقوامی امداد پہنچنا شروع

01:38

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں