پاکستان: ’تحریک لبیک پاکستان‘ پر پابندی عائد
25 اکتوبر 2025
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک کالعدم تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ جمعرات کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
وزیرِ اعظم آفس سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر اس پابندی کی منظوری دی۔
یہ حالیہ برسوں میں دوسرا موقع ہے جب ٹی ایل پی پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس جماعت پر پہلی بار اپریل 2021 میں اس وقت پابندی عائد کی گئی تھی جب فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف پرتشدد احتجاج کیے گئے تھے۔ اس وقت ٹی ایل پی نے پاکستان میں فرانسیسی سفیر کے ملک بدری کا مطالبہ کیا تھا۔
نومبر 2021 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد پابندی ختم کر دی تھی، حالانکہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے گروہ کو دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کا موقع ملا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی نے معاہدے پر عمل نہیں کیا اور تشدد میں ملوث رہی۔
ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو 'لبیک یا اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا تھا جسے روکنے کی کوششوں پر ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں۔
ٹی ایل پی کے کارکنان غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان سے قبل اسرائیل مخالف احتجاجی مارچ کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
تیرہ اکتوبر کو پنجاب کے شہر مریدکے میں مارچ کو منتشر کر دیا گیا تھا، لیکن پولیس کے مطابق اس کارروائی کے دوران ایک ایس ایچ او جان سے گئے اور 80 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ٹی ایل پی نے بھی اپنے کئی کارکنوں کی اموات، زخمی ہونے اور گرفتاریوں کا دعویٰ کیا۔
ٹی ایل پی کا بیان
ٹی ایل پی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس پابندی کو مسترد کرتی ہے، اور اسے "غیر آئینی، انتقامی، غیر قانونی اور آمرانہ" قرار دیا۔
ٹی ایل پی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ ناصرف آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 17 اور آرٹیکل 19 کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ ملک میں جمہوری آزادیوں کے قتل اور سیاسی انتقام کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔
ادھر پنجاب حکومت کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے جمعرات کے روز صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ پرتشدد واقعات کے باعث ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کی سفارش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کے دفاتر پہلے ہی پنجاب حکومت نے بند کر دیے ہیں۔
پولیس نے گزشتہ ہفتے سے اب تک ٹی ایل پی کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا ہے، اور بخاری کے مطابق جماعت کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جبکہ ان ارکان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جو تشدد کے دوران پولیس پر حملوں میں ملوث تھے۔
پولیس کو ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی تلاش
حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اب ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی تلاش میں ہے، جو 13 اکتوبر کو جھڑپیں شروع ہونے کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔
پولیس کو شبہ ہے کہ رضوی لاہور کے مضافات سے فرار ہونے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کہیں روپوش ہیں، اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تاہم، ٹی ایل پی کا کہنا ہے کہ لاہور کے قریب مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس آپریشن شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی ان کا سعد رضوی سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان کیا ہے؟
یہ سنی مسلم تنظیم 2011 میں ممتاز قادری نامی ایک سکیورٹی اہلکار کی پھانسی کے خلاف قائم کی گئی تھی۔ ممتاز قادری نے پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کر دیا تھا جو ان کا باڈی گارڈ کے طور پر تعینات تھا۔
یہ جماعت 2016 میں باضابطہ طور پر سیاست میں داخل ہوئی اور 2018 کے انتخابات میں 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔
فروری 2024 کے انتخابات میں، ٹی ایل پی نے پنجاب میں ایک صوبائی نشست جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔
ٹی ایل پی اپنے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے لیے مشہور ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برسوں میں، ٹی ایل پی نے ہزاروں پرجوش حامیوں کو متحرک کیا، جنہوں نے شہروں کو مفلوج کیا، مغربی سفیروں کی ملک بدری کا مطالبہ کیا، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا اور فسادات کو ہوا دی۔
ادارت: صلاح الدین زین