پاکستان تمباکو نوشی کے خلاف اقدامات کرنے والے ممالک میں شامل
شمشیر حیدر AFP/DW
6 اپریل 2017
دنیا بھر کے اکثر ممالک میں سن 1990 کے بعد یومیہ بنیادوں پر تمباکو نوشی کرنے والے خواتین و حضرات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر تمباکو نوشی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
میڈیکل جنرل ’دی لینسٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی اور تمباکو کی دوسری مصنوعات کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب سن 2015 میں دنیا بھر میں چونسٹھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے نصف کا تعلق چار ممالک چین، بھارت، امریکا اور روس سے تھا۔
اس تازہ تحقیق میں عالمی سطح پر سن 1990 سے لے کر سن 2015 تک کے دورانیے میں تمباکو نوشی کے یومیہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 1990 میں دنیا بھر میں ہر تیسرا مرد اور ہر بارہ میں سے ایک خاتون روزانہ تمباکو نوشی کر رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں پچیس برس بعد یعنی سن 2015 میں ہر چوتھا مرد اور ہر بیسویں عورت روزانہ سگریٹ پی رہے ہیں۔
جرمنی: سگریٹ کی ڈبیا پر دِل ہِلا دینے والی تصویریں
دیگر ملکوں میں ایسا پہلے سے ہی ہے لیکن بیس مئی سے جرمنی میں بھی سگریٹ نوشوں کو سگریٹ کی ہر ڈبیا پر ہولناک تصویریں دیکھنا پڑیں گی۔ ایسی تصاویر کا مقصد سگریٹ نوشوں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ چیز صحت کے لیے کتنی خطرناک ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo
صرف عبارت ہی کافی نہیں
اب تک جرمنی میں سگریٹ کی ہر ڈبیا پر ’تمباکو نوشی مہلک ہے‘ جیسی عبارتیں ہی چَھپتی تھیں۔ بیس مئی سے سگریٹ کی ہر ڈبیا کے دو تہائی حصے پر ایسی تصاویر ہیں، جن کا مقصد بقول سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈرگ پالیسی کے ترجمان برکہارڈ بلینرٹ کے ’نوجوان نسل کو تمباکو نوشی شروع کرنے سے روکنا ہے‘۔ یوں جرمنی نے یورپی یونین کے 2014ء کے ضابطے کو عملی شکل دے دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ایک سال کی خصوصی مہلت
سگریٹ نوشی دانتوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہ پیغام ہے، اس طرح کی تصاویر کا۔ سگریٹ کی ڈبیا کا دو تہائی حصہ ایسی تصاویر سے ڈھکا ہونا چاہیے۔ سگریٹ اور تمباکو کی مصنوعات کی مئی 2016ء تک تصاویر کے بغیر شائع ہونے والی پیکنگز ابھی مزید ایک سال تک مختلف اسٹورز پر فروخت کی جا سکیں گی، پھر ان ہولناک تصاویر سے بچنا محال ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تمباکو نوشی کی تشہیر پر بھی پابندی
ایک نئے جرمن قانون کے تحت عوامی مقامات پر آویزاں کیے گئے بِل بورڈز اور پوسٹرز پر اور ایسے سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی کی تشہیر منع ہو گی، جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد بھی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ سیاستدان امید کر رہے ہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں نوجوان نسل سگریٹ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
ابتدا آسٹریلیا نے کی
آسٹریلیا کے قانون ساز سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات میں اس سے بھی کہیں آگے چلے گئے۔ وہاں دو ہزار بارہ سے سگریٹ کی ہر ڈبیا پر بغیر کسی عبارت کے شائع کی گئی بڑی بڑی تصاویر سگریٹ نوشی سے خبردار کر رہی ہیں۔ فرانس میں ایسا 2016ء کے اواخر سے دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/R. Pierse
سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیاں ناراض
سگریٹ کی ہر نئی ڈبیا پر اُس کے مخصوص برانڈ کا نام اب نچلے حصے میں چھوٹے سائز ہی میں درج ہو گا۔ پھر برانڈ کوئی بھی ہو، ہر پیکٹ کا رنگ بھی ایک جیسا ہے۔ اب جرمنی میں تصویر سگریٹ کی ڈبیا کے دو تہائی حصے کو ڈھکتی ہے لیکن فرانس میں اس سے بھی زیادہ حصے کو ڈھانپے گی۔ کچھ فرانسیسی کمپنیوں نے اس طرح کے ضوابط کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo
’سگریٹ نوشی بتدریج کم ہو جائے گی‘
سگریٹ کی ڈبیا پر تصاویر کے مخالف حلقوں کے خیال میں یہ تصاویر لوگوں کو سگریٹ نوشی سے نہیں روک پائیں گی۔ حامیوں کے خیال میں پہلے سگریٹ نوشی نہ کرنے والے سگریٹ کا پیکٹ اٹھانے سے جھجکیں گے۔ ماہر نفسیات کرسٹوف کروئگر کے مطابق ’جب سگریٹ نوشی کو خوبصورت پیکنگز اور اشتہارات میں دکھائی جانے والی اچھی چیزوں کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا تو رفتہ رفتہ سگریٹ نوشی کم ہوتی جائے گی‘۔
تصویر: picture alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
اگر عالمی سطح پر آبادی میں اضافے کو پیش نظر رکھا جائے تو تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سن 1990 میں 870 ملین لوگ یومیہ سگریٹ پیتے تھے جب کہ پچیس برس بعد 930 ملین افراد ہر روز سگریٹ سلگاتے ہیں۔
تمباکو نوشی میں عالمی سطح پر کمی کا سبب دنیا بھر کے اکثر ممالک کی جانب سے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ، سگریٹ کے مضمرات سے آگاہ کرنے کے لیے اشتہارات اور معلومات کی فراہمی اور سگریٹ کے پیکٹوں پر خبردار کرنے کے لیے بھیانک تصاویر اور انتباہی پیغامات بنے۔
پاکستان، بھارت اور پاناما نے گزشتہ دہائی کے دوران انسداد تمباکو نوشی کے لیے دنیا بھر میں سب سے زیادہ اور موثر اقدامات کیے ہیں۔ 1990 تا 2005ء کے مقابلے میں ان تینوں ممالک میں گزشتہ دس برسوں میں تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تعداد میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ سگریٹ انڈونیشیا، بنگلہ دیش، فلپائن، جاپان، برازیل اور جرمنی میں پیے جاتے ہیں۔ صرف ان چھ ممالک میں سگریٹ نوشوں کی تعداد عالمی تعداد کا ایک تہائی بنتا ہے۔ برازیل نے ان پچیس برسوں کے دوران انسداد تمباکو نوشی کے لیے مؤثر ترین اقدامات کیے۔ 1990ء میں قریب انتیس فیصد برازیلی مرد اور انیس فیصد عورتیں سگریٹ پیتی تھیں لیکن 2015ء میں وہاں صرف بارہ فیصد مرد اور آٹھ فیصد عورتیں تمباکو نوشی کرتی ہیں۔
لیکن انڈونیشا، بنگلہ دیش اور فلپائن میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی شرح میں ان پچیس برسوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ان تینوں ممالک میں بالترتیب 47، 38 اور 35 فیصد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔
ای سگریٹ: اچھا متبادل یا مضر صحت؟
ای سگریٹ خوب دھواں چھوڑتی ہے لیکن اس کی کوئی بُو نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصل سگریٹ کا ایک زیادہ صحت بخش متبادل ہے؟ آئیے، اس گیلری میں اس دھواں چھوڑتی مشین کا ذرا غور سے جائزہ لیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک پُر کشش گناہ؟
اکتیس مئی 2014ء، انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن۔ اس روز کئی لوگ تمباکو نوشی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا عزم کریں گے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ ای سگریٹ کی مدد لیتے ہیں، جن کی فروخت دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ ای سگریٹ بغیر کسی احساسِ جرم کے، بغیر بُو دار دھواں چھوڑے اور بغیر اپنی صحت کو خطرے میں ڈالے پی جا سکتی ہے، کم از کم ای سگریٹ بنانے والے یہی دعویٰ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ کیسے کام کرتی ہے؟
ای سگریٹ ایک ری چارج ایبل بیٹری (مثلاً USB کنکشن کی مدد سے کمپیوٹر پر بھی چارج ہونے والی)، بخارات بنانے والے ایک آلے اور ایک چھوٹی سی ڈبیا پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں اپنی پسند کا نکوٹین کا حامل کوئی بھی خوشبو دار محلول رکھا جا سکتا ہے۔ جب تمباکو نوش اس سگریٹ کو منہ لگا کر سانس اندر کو کھینچتا ہے تو محلول سے بخارات اٹھتے ہیں اور وہ اس دھوئیں کو ای سگریٹ کے ساتھ منہ لگا کر اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔
ایک نہیں، کئی ذائقے
ای سگریٹ میں مختلف ذائقے ہوتے ہیں۔ تمباکو کی خوشبو والے محلول سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں، جن کے بعد مختلف پھلوں مثلاً اسٹرابری اور سیب کے ذائقے والے مائع جات کی باری آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف شدت کی نکوٹین کے حامل محلول بھی دستیاب ہوتے ہیں اور نکوٹین سے پاک اور بغیر ذائقے والے مائع جات بھی۔
تصویر: picture alliance/Fredrik von Erichsen
ہر طرح کے تمباکو نوش کے مزاج کے مطابق
بازار میں نہ صرف مختلف ذائقوں والے ای سگریٹ دستیاب ہیں بلکہ اگر کوئی عام طور پر سگریٹ نوشی نہ کرتا ہو تو وہ ای سگار یا ای پائپ سے بھی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار سگریٹ نوشی کرنے والے کے لیے بھی ای سگریٹ دستیاب ہے، جو اپنی تقریباً دَس یورو کی قیمت کے ساتھ مقابلتاً مہنگی بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ میں کوئی چیز جلتی نہیں
تمباکو نوشی کی تعریف یہ ہے کہ اس میں ’پودوں کے جلتے ہوئے حصوں کے دھوئیں کو جانتے بوجھتے سانس کے ذریعے منہ میں کھینچا اور پھر سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک لے جایا جاتا ہے‘۔ ای سگریٹ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی جلتا نہیں ہے، نہ تمباکو اور نہ ہی کوئی اور پودا۔ کم ا ز کم سابق تمباکو نوشوں کی صحت کے لیے تو اس میں فائدہ نظر آتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ کب تک برداشت ہو سکے گی؟
جو لوگ تمباکو نوشی نہیں کرتے، وہ تمباکو کے دھوئیں کو اپنے آس پاس بھی نہیں دیکھنا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں دفاتر اور ریستورانوں وغیرہ میں غیر تمباکو نوشوں کے تحفظ کے لیے تمباکو نوشی پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ کیا ای سگریٹ پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی؟ ابھی تک تو ایسا نہیں ہے لیکن اس موضوع پر بحث بدستور جاری و ساری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ میں استعمال ہونے والے مشکوک مادے
ای سگریٹ میں کون کونسے مادے استعمال ہوتے ہیں، ایک عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں ہے۔ مثلاً ای سگریٹ میں پروپائلین گلائیکول نامی بے بُو، بے رنگ اور نمی کو جذب کرنے والا مادہ بھی استعمال ہوتا ہے، جو مصنوعی دھند بنانے والی مشینوں میں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جلد پر لگانے والی کریموں اور ٹوتھ پیسٹ میں موجود ہوتا ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے استعمال کے طویل المدتی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مختلف آراء
اگر تو معاملہ یہ ہے کہ آیا انسان کو ای سگریٹ نوش کرنی چاہیے یا پھر اصل تمباکو والی سگریٹ ہی نوش کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے تو پھر تو ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ ای سگریٹ بہرحال صحت کے لیے کم خطرناک ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سرے سے ہی سگریٹ نوشی ترک کر دینا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ای سگریٹ کے مضرِ صحت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ابھی طویل المدتی جائزے سامنے نہیں آئے ہیں۔