1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: توہینِ مذہب کے الزام میں مسلم خاتون کو موت کی سزا

20 جنوری 2022

پاکستان میں ایک مسلم خاتون کو واٹس ایپ پر مذہب سے متعلق توہین آمیز پیغام ارسال کرنے کے جرم میں عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ ملزمہ کی عمر 26 برس بتائی گئی ہے۔

سزائے موت
فائل فوٹوتصویر: Nerijus Liobe/Zoonar/picture alliance

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی شہر راولپنڈی میں مقامی عدالت نے بدھ کے روز ایک مسلم پاکستانی خاتون کو واٹس ایپ پر  توہین مذہب  اور  توہین رسالت  پر مبنی مواد ارسال کرنے کے جرم میں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا۔

مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس اور خطرناک معاملہ سمجھاجاتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن ابھی تک کسی شخص کو اس جرم کے لیے عملی طور پر پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔

پاکستانی جیلوں میں تقریباً 80 افراد توہین مذہب کے الزام میں قید ہیںتصویر: AP

عدالت کے مطابق 26 سالہ پاکستانی خاتون کو مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر دین اسلام کے حوالے سے 'توہین آمیز مواد‘  شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ جب مذکورہ خاتون کے دوست نے انہیں یہ متنازعہ اسٹیٹس تبدیل کرنے کا کہا تو انہوں نے یہ مواد اسی کو فارورڈ کر دیا۔

دریں اثناء عدالت نے ملزمہ کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ20 سال قید کا فیصلہ بھی سنایا۔

توہینِ مذہب کا متنازعہ قانون

سن 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت توہینِ مذہب کے قوانین  برطانوی حکومت سے ورثے میں ملے تھے۔ ان میں توسیع اور شدت سن 1977 سے سن 1988 کے دوران پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے متعارف کرائی تھیں۔

یورپی یونین کی قرارداد اسلاموفوبیا پر مبنی ہے؟

05:11

This browser does not support the video element.

بین الاقوامی آزادی مذہب کے امریکی کمیشن  کے مطابق اس وقت پاکستانی جیلوں میں تقریباً 80 افراد توہین مذہب کے الزام میں قید ہیں جن میں سے نصف سے زائد ملزمان کو عدالت عمر قید یا پھر موت کی سزا سنا چکی ہے۔

توہین مذہب کا غلط استعمال

پاکستان میں توہین مذہب  کے زیادہ تر واقعات میں مسلمان ہی اپنے دیگر ہم مذہب مسلمانوں پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ حقوق انسانی کے سرگرم کارکنان کے مطابق مذہبی اقلیتوں میں خصوصاً مسیحی برادری کو اکثر نجی نوعیت کے اختلافات کی وجہ سے توہین مذہب کے متنازعہ قانون کا نشانا بنایا جاتا ہے۔

تصویر: ARIF ALI/AFP

واضح رہے گزشتہ دسمبر میں سری لنکا کے ایک شہری  کو، جو پاکستانی شہر سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرتا تھا، مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا نے کے بعد اس کی لاش کو بے رحمی سے آگ لگادی  گئی تھی۔

سن 2018 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے توہین مذہب سے جڑے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد بہت بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ جس کے بعد  آسیہ بی بی  کو بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔

ع آ / ج ا (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں