1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: توہین مذہب کا مقدمہ، صحافی کی زندگی کو خطرات لاحق

1 ستمبر 2022

وقار ستی کے خلاف عمران خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے بعد توہین مذہب کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ ٹی وی رپورٹر کا کہنا ہے کہ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر وہ اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔

Pakistan Journalist Waqar Satti Todesdrohungen
تصویر: Warqar Satti

پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے صحافی وقار ستی کا کہنا ہے انہیں اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وقار ستی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے خلاف راولپنڈی میں توہین مذہب کی ایف آئی آر کے اندراج نے ان کی معمول کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ساتھ وابستہ وقار ستی نے بتایا، ''اب مجھے ہر وقت اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اب اپنے پشہ وارانہ صحافتی فرائض کی انجام دہی میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اب جب دفتر والے میری کوئی اسائمنٹ لگاتے ہیں تو سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے مجھے سوچنا پڑتا ہے کہ میں کیسے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے کام کروں کیونکہ پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں، خاص طور پر رپورٹروں کو، ویسے ہی محتاط رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘

عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے پر ناقدین کی تشویش

وقار ستی کے خلاف27 اگست کو راولپنڈی کے ایک مقامی تھانے میں چودھری ناصر نامی ایک کیبل آپریٹر کی مدعیت میں توہین مذہب کی 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔  ان کے خلاف شکایت کے متن میں کہا گیا ہےکہ انہوں نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے منسوب مذہبی نوعیت کی ایسی باتوں پر مشتمل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی، جو عمران خان نے نہیں کی تھیں۔

اس بارے میں وقار ستی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے حامی کافی دنوں سے ٹویٹر پر ان کی ٹرولنگ کر رہے تھے جس کے بعد انہوں نے عمران خان کے قول و فعل میں مبینہ تضاد کی نشاندہی کرنے کے لیے ان کی مختلف تقریروں کے ویڈیو کلپ جوڑ کر ایک ویڈیو بنائی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ وقار ستی کا کہنا تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنے دفتر کی جانب سے کہنے پر اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ بھی کر دی تھی۔ انہوں نےکہا، ''میں نے اس پوسٹ میں ایک نقطہ بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کیا تھا، لیکن اس کے باوجود مجھ پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جو سرا سر غلط ہے۔‘‘

پی ایف یو جی کے صدر افضل بٹ تصویر: Afzal Butt

تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے صوبائی وزیر برائے پارلیمانی امور راجہ بشارت نے  نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ سیاسی 'پوائنٹ اسکورنگ‘ کے لیے مذہبی منافرت کو ہوا دینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے وقار ستی کے خلاف مقدمے کے اندراج پر ملک بھر میں احتجاج کیا۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک صحافی کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے افضل بٹ نے کہا، ''ایک سیاسی جماعت کی طرف سے صحافی کے خلاف اس نوعیت کے سنگین مقدمے کا اندراج قابل افسوس ہے۔ اگر پی ٹی آئی خود کو ایک جمہوری جماعت کہتی ہے تو اس کی قیادت کو اپنے اس اقدام پر سوچنا ہوگا ورنہ صحافی جنہیں پہلے ہی سلامتی کے متعدد خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں شروع کر دی گئیں تو پھر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی طرف سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹیم کے ارکان کی طرف سے اس بار میں جواب نہیں دیا گیا ۔

افضل بٹ کا کہنا ہے کہ پی ایف یو جے نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ وقار ستی اپنے خلاف مقدمے میں ضمانت نہ کرائیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یہ مقدمہ جن کی طرف سے درج کرایا گیا ہے وہی اسے واپس بھی لیں۔ اس میں ضمانت لینے کا مطلب اس بے بنیاد اور جھوٹے مقدمےکو تسلیم کرنا ہوگا۔ لہذا اس کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ پی ٹی آئی اس مقدمے کو واپس لے۔‘‘

پاکستان میں توہین مذہب کا الزام ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کی وجہ سےمتعدد افراد نا صرف جیلوں میں قید ہیں بلکہ  بہت سے قتل بھی کیے جا چکے ہیں۔

ش ر ⁄ ع ص

کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟

04:59

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں