1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: تین متوازی تعلیمی نظام، خیالات اور نظریات کی خلیج

15 جولائی 2020

گزشتہ کئی برسوں سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے منسلک ہوں۔ اکثر ذہن میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ پاکستان میں بیک وقت تین متوازی تعلیمی نظام، سرکاری تعلیمی ادارے، مدارس اور نجی اسکولوں میں اس قدر فرق اور خلیج کیوں موجود ہے؟

DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

ان کی عمارات، اساتذہ اور طلبا کے احوال دیکھ کر اکثر ایک الجھن سر اٹھاتی ہے کہ طبقاتی اور شعوری فرق کے ذمے دار کیا ہمارے تعلیمی ادارے ہیں؟ جواب سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان وجوہات کا جائزہ لیا جس کی وجہ سے نظام ایسا بن چکا ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیمی سال کے آغاز سے اساتذہ کو ایک کلینڈر کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ کس تاریخ تک کتنے موضوعات مکمل کرنے ہیں۔ سلیبس ترتیب دینے کی ذمے داری اساتذہ پر عائد نہیں ہوتی۔ کچھ سات آٹھ سال کے عرصے سے اب سرکاری اداروں میں اساتذہ کی بھرتی کے معاملات میں ایک مثبت تبدیلی سامنے آئی ہے۔ اب ایم ایس سی، ایم فل تک پڑھے ہوئے افراد بھی پرائمری سکولوں میں ٹیچنگ کو برا نہیں سمجھتے، اپنی تعلیم ساتھ جاری رکھتے ہیں اور گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہر دو سال یا سال بعد ٹریننگ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ صرف تب ہی ممکن ہے اگر استاد اس میں خود دلچسپی لے ورنہ صرف حاضری لگانے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔

پرائمری سکولوں میں لیبارٹری ،کمپیوٹر لیب یا کوئی بھی ٹیکنیکل سپورٹ بمشکل دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں رٹہ کلچر،تجرباتی تعلیم کی نسبت زیادہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک بچے کی ذہنی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ خود ایسی تخلیقی سرگرمیوں سے سیکھتا ہے یا نہیں کیونکہ سرکار کی طرف سے بنائے گئے نظام تعلیم میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق یہ سہولیات  فی الوقت میسر نہیں ہیں۔

 اسی طرح مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ طلبا جن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہوتے بلکہ کچھ بچے تو خود مزدوری بھی کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں پڑھنے کا جذبہ لائق تحسین ہے۔ اب اگر اساتذہ کی بات کی جائے تو پڑھائی کے ساتھ انہیں گھروں سے بچوں کو منتیں کر کے خود پڑھنے کے لیے لانا پڑتا ہے تاکہ حاضری کا تناسب قائم رہے اور فنڈز کی آس بنی رہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات پولیو ورکرز کے ساتھ ڈیوٹی نبھانے کے علاؤہ غسل خانوں کی صفائی سے لے کر درختوں کی کٹائی کے معاملات بھی اساتذہ کو خود سنبھالنے پڑتے ہیں۔

اب اس صورت حال میں طلبا جیسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بے شک جہاد سے افضل ہے۔ طلبا کی حاضری کم ہونا یا تعلیم سے دلچسپی کم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہی دہائیوں پرانا نصاب اور طریقہ تدریس اب تک جاری ہے، جوکہ طلبا کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز ٹیکنالوجی اور تجرباتی اور نظریاتی تعلیم شاید اس نظام کو بہتر بنانے میں مدد دے۔ ان تمام تکالیف اور خامیوں کے باوجود ہر سال بورڈ کے امتحانات میں کچھ ناموں کا روشن ہونا ایک خوشگوار تاثر دیتا ہے کہ محنت اپنا رنگ لاتی ہے۔

مدارس کا نظام

دوسرے درجے پر آ کر مدارس کے نظام پر ایک نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں مدارس  نے ہزاروں طلبا کو مفت تعلیم دے کر ریاست کا کافی سارا بوجھ ہلکا کر رکھا ہے۔ دینی مدارس میں تین طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک حفظ قرآن، جس کا آغاز قائدے اور ناظرہ سے ہوتا ہے ۔ دوئم تجوید، اس کی اپنی مخصوص کتب ہیں، جو درجہ بدرجہ مشکل اسباق کی تلاوت و ترتیل میں مدد دیتی ہیں۔ سوئم عالم کورس میں نحو، منطق، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث اور تفاسیر پڑھائی جاتی ہیں۔

 مدارس میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے رائج سلیبس ہی پڑھایا جاتا ہے۔ اساتذہ کی تربیت یا تو تبلیغی چلے کے زمرے میں ہو جاتی ہے یا پھر وہ تصوف سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ نیز مدارس اپنے ذہین طلبا کو ہی بطور استاد پڑھانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ مدارس میں طلبا کی کامیابی کی ضمانت ان کی یادداشت پر ہے، تخلیقی سرگرمیاں یا تجرباتی مشاہدے کا ذکر کم ہی سامنے آتا ہے۔ جن مدارس کے پاس بہتر فنڈز ہیں، انہوں نے کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ باقاعدہ سکول کی تعلیم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

عالمی یوم تعلیم، فرسودہ نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت

سندھ: اسکول وڈیروں کے اصطبل تو کہیں مویشیوں کے باڑے

مدارس طلبا کی رہائش، خوراک اور پڑھائی کا مکمل خرچہ خود ہی برداشت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے والدین قدرے بے پروائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہمیں اکثر طلبا پر جسمانی تشدد کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ یہ واقعات اکثر دیہی علاقوں سے رپورٹ کیے جاتے ہیں، جہاں مدارس کی  انتظامیہ (جو کہ اکثر ایک فرد واحد ہوتا ہے)پر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو ۔ اب مدارس نے ان معاملات پر کڑے ضوابط بنائے ہیں۔ مدارس سے بھی تخلیقی، نظریاتی اور فکری سوچ کے ساتھ ابھرنا ایک طالب علم کی اپنی جہد مسلسل کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

مدارس کے فارغ التحصیل طلبا زیادہ تر واپس اسی ذریعہ معاش سے جڑتے ہیں۔ یہ اب جاننے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اگر مدارس ریاست کا اتنا بوجھ بٹا رہے ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نصاب اور تکنیکی معاونت کے لیے مدارس کی مدد کرے تاکہ ان متوازی تعلیمی اداروں میں خلیج کم ہو اور ایک ادارے کا بچہ دوسرے ادارے میں داخل ہوتے ہوئے خود کو کمتر یا حقیر محسوس نہ کرے۔ ابھی کچھ دن پہلے مدرسے کے طالب علم کی سی ایس ایس کی تیاری کی خبر آئی جوکہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔

نجی تعلیمی ادارے

اچھے نجی تعلیمی اداروں کے دروازے تعلیمی سال کے آغاز سے ٹھیک پندرہ دن یا مہینہ پہلے ہی سکول ٹیچرز کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ ابتدائی ٹریننگز اور ورکشاپس کروائی جاتی ہیں۔ نصاب ہر سال تبدیل ہوتا ہے لیکن یہ تبدیلی دو تین موضوعات سے زیادہ نہیں ہوتی فی کتاب۔ پرائیویٹ ٹیچرز کو یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ اپنا سکیم آف ورک اور سلیبس خود ڈیزائین کریں۔ اگر ہر بچہ ایک ہی طریقہ کار سے نہیں پڑھ سکتا تو ہر استاد بھی ایک ہی طریقہ کار سے ایک ہی سبق نہیں پڑھا سکتا۔

لہذا استاد سلیبس کا خود ذمہ دار ہے، طلبا کے نظریات اور سلیبس کے معیار کی ایک استاد کی نوکری یا تنخواہ میں اضافے کی ضمانت بنتے ہیں۔ فرنچائزز میں البتہ بنا بنایا سلیبس ملتا ہے کہ انہوں نے ملک میں پھیلی اپنے تمام یونٹس میں ایک ہی دن ایک ہی جیسا سبق پڑھوانا ہوتا ہے۔ اساتذہ مسلسل تربیت کے مراحل میں گزرے رہتے ہیں۔

 پرائیویٹ اداروں کی ماہانہ فیس ڈھائی ہزار ماہانہ سے لے کر تیس ہزار ماہانہ فی بچہ بھی ہو سکتی ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کا بچہ کہاں پڑھتا ہے۔ کھیل، موسیقی، ڈرامیٹکس اور ہم نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے طلبا کے یہ جوہر بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔ جدید پرائیویٹ سکولوں کی بہترین بات یہ ہے کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے ضوابط کو ڈھالتے رہتے ہیں اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں اپنا کہیں نہ کہیں حصہ ضرور ڈال رہے ہیں۔

میرے خیال سے والدین کے معاشی مسائل بچوں کے مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکومت سبھی بچوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ تین مختلف نظام تعلیم تین مختلف قسم کی سوچوں اور نظریات کے حامل افراد پیدا کر رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع، خیالات اور نظریات میں تقسیم اور خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا کوئی ایسا نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے کہ ان متوازی تعلیمی نظاموں کے بیچ حائل خلیج کم ہو سکے؟

تعلیم کی لگن، روزانہ افغانستان سے پاکستان آنے والے بچے

01:21

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں