پاکستان جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دے، ایمنسٹی
18 جون 2020انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور جبری گمشدگیوں کو قانوناﹰ جرم قرار دیں۔ ایمنسٹی کے مطابق جبری طور پر غائب کیے جانے والوں کو تشدد اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ اس کے علاہ رہائی کے بعد یہ افراد جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا شکار رہتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستانی وزارت دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ سات ماہ قبل لاپتہ ہونے والے انسانی حقوق کا کارکن ادریس خٹک ملکی خفیہ ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔
ایمنسٹی کی جانب سے جمعرات اٹھارہ جون کو جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ چھپن سالہ ادریس خٹک گزشتہ برس نومبر میں خیبر پختوخواہ سے لاپتہ ہوا تھا۔ ادریس خٹک ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ وہ کئی سالوں سے خیبر پختونخواہ اور سابقہ وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے موضوع پر کام کر رہے تھے۔
مزید پڑھیے: گمشدہ افراد کا ’ریکارڈ مرتب کرنے والا‘ خود لاپتہ
انسانی حقوق کی اس تنظیم کے مطابق ادریس خٹک پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کو عدالت میں کسی مقدمے کا سامنا کرنے کا موقع دیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ سولہ جون کو وزارت دفاع کے اعتراف کے بعد خٹک کے اہل خانہ، ساتھی کارکنان اور عالمی اور مقامی انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم شروع ہو گئی۔ تاہم ابھی تک خٹک کا پتہ نہیں چل سکا ہے اور ان پر عائد الزامات کی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے، جن میں انسانی حقوق کے کارکنان، نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کے ممبران اور ملک کی طاقتور فوج کے ناقدین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کا حکم: ’جبری گمشدگی کا مسئلہ حل ہونے کی امید‘
ایمنسٹی نے ایک بیان میں کہا، ’’پاکستان میں، جبری گمشدگی کو فوج کی پالیسیوں پر اختلاف رائے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیم نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی دہشت گردی کا ایک طریقہ کار ہے جو صرف فرد واحد کو نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ اور معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
ع آ / ع ا (ڈی پی اے، ایمنسٹی انٹرنیشنل)