1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: جرمن تعاون سے قائم کردہ وائرولوجی سينٹر کيوں اہم؟

حسن کاظمی
30 مارچ 2020

کورونا وائرس کی وباء سے ہر ملک اپنے طور پر نبرد آزما ہے تاہم پاکستان میں حال ہی میں جرمنی کے تعاون سے قائم کردہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی، محدود وسائل کے باوجود اس وائرس کی تشخیص کا عمل سہل بنانے کی کوشش ميں مصروف ہے۔

تصویر: picture-alliance/Geisler/C. Hardt

اس ضمن میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی کے انچارج ڈاکٹر محمد راشد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے طور پر کراچی کے انڈس ہسپتال کو چار پی سی آر مشینیں دی ہیں جو کورونا وائرس کے ٹیسٹ میں کارآمد ہوتی ہیں اور انہیں چلانے کے لیے 6 افراد پر مشتمل عملہ بھی فراہم کیا ہے۔

اس طرح انڈس ہسپتال میں جہاں پہلے صرف دو مشینيں تھیں اب وہاں 6 ہیں اور 6 افراد کا اضافی عملہ بھی ہے جس سے اس ہسپتال کی کورونا وائرس کی تشخیص کی صلاحیت میں تین گُنا اضافہ ہوگیا ہے، اس ایک مشین کی لاگت لگ بھگ 50 لاکھ روپے ہے۔

تصویر: picture-alliance/KEYSTONE/G. Bally

انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت انڈس ہسپتال میں تقریباً 6 گھنٹے میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو حقیقتاً اس وقت پاکستان میں وائرس پر تحقیق کے لیے یہی ایک ادارہ موجود ہے، اور یہ ادارہ بھی ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ  کا ذیلی ادارہ ہے جو جامعہ کراچی کے ماتحت ہوتے ہوئے بھی اپنے معاملات میں کافی حد تک خود مختار ہے۔ اس ادارے کے سرپرستِ اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹرعطاالرّحمان ہیں جو وزیرِاعظم کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے بنائی گئی خصوصی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی ہیں اور اس کا افتتاح گزشتہ سال ستمبر میں وفاقی وزیرِ تعلیم و فنّی تربیت شفقت محمود نے کیا تھا۔

تاہم اب تک وفاقی یا صوبائی حکومت نے اس ادارے سے رابطہ کرکے کورونا وائرس کے معاملے پر اس ادارے سے کسی قسم کی مشاورت کی ہے اور نہ ہی معاونت طلب کی ہے۔

اس ادارے کے انچارج ڈاکٹر راشد نے بتایا کہ کیونکہ ابھی يہ نیا ہے اس لیے اس بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

اپنے ادارے یعنی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت 3 مختلف اقسام کی کٹس پر کام کررہے ہیں جو تشخیصی عمل میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ جو نمونے حاصل کیے جائیں انہیں تجربہ گاہ تک باآسانی پہنچا کر اس کی جانچ  پڑتال کی جا سکے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/C. Gateau

اس ضمن میں تفصیلات  بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا "انسان کے نظامِ تنفّس میں کچھ خاص طرح کی رطوبت ہوتی ہے جسے ناک کے انتہائی اندرونی حصے یا پھر حلق کے اندر سے کافی پیچیدہ طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے اور صرف چند ہی افراد ایسے ہیں جو اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس رطوبت کو حاصل کرنے کے بعد ایک خاص قسم کے محلول میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ یہ لیبارٹری تک بنا کسی بیرونی اثر کے پہنچ سکے۔" ڈاکٹر راشد نے بتایا کہ کیونکہ پاکستان میں اس وباء کی شدت میں اضافے کا امکان ہے اور مزید تشخیصی سامان کی ضرورت پڑے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تین اقسام کی کٹس کو تیار کرلیا گیا ہے اور اب اس کے نتائج پر کام کیا جارہا ہے تاکہ اسے عالمی معیار کے مطابق بنایا جاسکے، ''اس عمل کو 'ویلیڈیشن‘ کہتے ہیں اور اس پر تیزی سے کام ہورہا ہے اور آئندہ 10 روز میں یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ صرف تشخیص کی بات کیوں کررہے ہیں اور کورونا وائرس کی اس وباء سے بچاؤ یا اس کے علاج کے سلسلے میں کام کیوں نہیں کیا جارہا تو اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا علاج کرنا اور اس وائرس سے حفاظت یا بچاؤ دو الگ الگ معاملات ہیں اور علاج کا مطلب اینٹی وائرل دوا بنانا ہے جس پر دنیا میں اس وقت کام نہیں ہورہا کیونکہ یہ سانس کے ساتھ پھیلنے والا وائرس ہے اور یہ وائرس بہت ہی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر راشد کا کہنا تھا کہ اینٹی وائرس دوا بنانے کے لیے وائرس کا ہونا ضروری ہے جیسے مچھر مار دوا بنانے کے لیے مچھر چاہیے ہوں گے تاکہ اس پر دوا کا تجربہ کیا جاسکے۔ اسی طرح کورونا وائرس کو مارنے کی دوا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تجربہ گاہ میں  پہلےکورونا وائرس تیار کیا جائے اور ایسا کرنا ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے اور اس کام کے لیے بہت ہی زیادہ تربیت یافتہ عملہ درکار ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان میں موجود نہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک نہایت ہی طویل اور پیچیدہ عمل ہے اور اس سلسلے میں بھی پاکستان میں مطلوبہ سہولت والی لیب اور عملہ موجود نہیں البتہ اس سلسلے میں ویکسین پر دنیا میں کافی زیادہ کام ہورہا ہے اور کچھ ادویات کے اب تجربات بھی شروع کیے جاچکے ہیں۔

ڈاکٹر راشد نے بتایا کہ  اس وقت کورونا وائرس کے مریض کا علاج کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا اس کا کسی ایک مریض سے دوسرے انسانوں میں پھیلنا اور حقیقت میں یہ ہی اصل مسئلہ ہے، یعنی اگر فوری طور پر تشخیص کرلی جائے متاثرہ شخص کو فوری طور پر علیحدہ کردیا جائے تو اس وباء پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر راشد نے کہا کہ ایک عام آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لے ، اور خصوصاً جو لوگ اس کووڈ 19 سے متاثرہ ہیں انہیں بہت ہی زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک قوی شخص کی قوتِ مدافعت اس وائرس کا مقابلہ کرلے مگر اگر کسی کمزور قوتِ مدافعت والے شخص کو یہ وائرس لگ گیا تو وہ شاید کورونا وائرس سے مقابلہ نہ کرسکے۔

تصویر: imago/StockTrek Images
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں