پاکستان: جرمن کوہ پیما کی’قاتل پہاڑ‘ سے کامیاب پیراگلائیڈنگ
3 جولائی 2025
ڈیوڈ گوٹلرنے نانگا پربت سے پہلی بار پیراگلائیڈنگ کی کامیاب پرواز کے زریعے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ جرمن کوہ پیما نے 30 منٹ طویل پرواز کو ’’جادوئی لمحہ‘‘ قرار دیا۔
47 سالہ گوٹلر نے نانگا پربت سے کامیاب پیرا گلائیڈنگ کے زریعے تاریخ رقم کر دی تصویر: David Göttler/dpa/picture alliance
اشتہار
مشہور جرمن کوہ پیما ڈیوڈ گوٹلر نے پاکستان کے 8,126 میٹر بلند خطرناک پہاڑ نانگا پربت کی چوٹی سے پیراگلائیڈنگ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے، جو اس پہاڑ سے پہلی کامیاب پرواز ہے۔ انہیں یہ کامیابی اپنی پانچویں کوشش میں گزشتہ ماہ حاصل ہوئی۔
47 سالہ گوٹلر نے جمعرات کے روز جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو اسپین سے فون پر بتایا، ''اڑان بھرنا بہت چیلنجنگ تھا، آپ کو ہر لمحہ مکمل ارتکاز کے ساتھ ہوا میں رہنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت پرواز تھی۔‘‘
ڈیوڈ گوٹلر نے یہ کامیابی اپنی پانچویں کوشش میں گزشتہ ماہ حاصل کی، انہوں نے اپنی پرواز کے لمحوں کو ’جادوئی‘ قرار دیاتصویر: Aamir Qureshi/AFP
انہوں نے چوٹی سے بیس کیمپ تک تقریباً 30 منٹ طویل پرواز کو ''جادوئی لمحہ‘‘ قرار دیا۔
پاکستانی الپائن کلب کے عہدیدار قرار حیدری کے مطابق یورپ، روس اور جاپان سے کئی کوہ پیماؤں نے ماضی میں اس بلند و خطرناک چوٹی سے پیراگلائیڈنگ کی کوششیں کیں لیکن کامیاب کوئی نہ ہو سکا۔ تاہم اب گوٹلر نے یہ کارنامہ انجام دے دیا ہے۔
نانگا پربت، جسے''قاتل پہاڑ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نویں بلند ترین اور خطرناک ترین چوٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ کئی کوہ پیما ماضی میں یہاں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
اس مہم کے دوران گوٹلر نے پہاڑ پر مکمل الپائن اسٹائل میں چڑھائی کی یعنی بغیر کسی شیرپا (مقامی گائیڈ)، مصنوعی آکسیجن یا رسیوں کے، اور ان کے ساتھ صرف دو دیگر یورپی ساتھی شامل سفر تھے۔
8,126 میٹر بلند نانگا پربت کو ’’قاتل پہاڑ’’ بھی کہا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/O. Matthys
نجی کمپنی ایڈونچر ٹورز پاکستان کے مالک نیک نام کریم نے اس مہم کے لیے لاجسٹک معاونت فراہم کی۔ انہوں نے کہا، ''یہ ایک غیرمعمولی جرات مندانہ اقدام تھا کیونکہ نانگا پربت ایک خطرناک چوٹی ہے۔‘‘
گوٹلر کی یہ کامیابی نہ صرف کوہ پیمائی بلکہ ایڈونچر اسپورٹس کی دنیا میں ایک نمایاں سنگِ میل ہے اور پاکستان کے ہمالیائی پہاڑوں کی تاریخ میں ایک نیا باب بھی۔
شکور رحیم ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت: کشور مصطفیٰ
کے ٹو یا چھو گوری: ایک چیلنج
پاکستان کے شمالی علاقے میں کئی انتہائی بلند پہاڑی چوٹیاں واقع ہے۔ ان میں کے ٹو کے علاوہ نانگا پربت، گیشن بروم اور براڈ پیک نمایاں ہیں۔ یہ کوہ پیماؤں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Daffue
کے ٹو: دوسری بلند ترین چوٹی
پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے تین اسی علاقے میں واقع ہیں۔ کے ٹو ان میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر( 28251 فٹ) ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/S. Majumder
سفاک پہاڑی چوٹی : کے ٹو
کے ٹو پہاڑی چوٹی کا پورا نام ماؤنٹ گوڈوِن آسٹن ہے۔ اردو میں اسے چھو گوری (چھو غوری) کہتے ہیں۔ بلتی زبان بولنے والے مقامی لوگ کے ٹو کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اب تک اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں 75 سے زائد کوہ پیما جاں بحق ہو چکے ہیں۔ روایت کے مطابق ہر چار برس بعد اس چوٹی کی جانب بڑھنے والوں میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
کے ٹو ٹریجڈی
سن 2008 میں کے ٹو کی مہم میں جانے والے گیارہ کوہ پیماؤں کو شدید برفانی طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے کر ہلاک کر دیا تھا۔ انہی میں ایک پاکستانی فضل کریم بھی شامل تھا۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کا تعلق نیپال، جنوبی کوریا، آئر لینڈ، فرانس اور سربیا سے تھا۔ ہلاک شدگان میں مشہور فرانسیسی کوہ پیما Hugues D'Aubarede بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کے راستوں کے ماہر: جہان بیگ
وادئ ہنزہ کے شمشال درے کے باسی جہان بیگ کے ٹو سر کرنے والوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی فضل علی کی طرح تین مرتبہ کے ٹو سر کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ جہان بیگ سن 2008 میں کے ٹو کی مہم کے دوران گیارہ ہلاک ہونے والوں میں دوسرے پاکستانی کوہ پیما تھے۔ تصویر میں اُن کی بیوی گل دانا اپنے شوہر کی تصویر تھامے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو سر کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیم
کے ٹو چوٹی کی ابتدائی نشاندہی کے بعد 26 جولائی سن 2014 کو پہلی مرتبہ چھ پاکستانی کوہ پیماؤں کی ٹیم تین اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مہم کے ٹو کی نشاندہی کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ اس کوہ پیمائی کے دوران چوٹی کی پیمائش بھی کی گئی۔ اس میں ایک پاکستانی کوہ پیما رحمت اللہ بیگ بھی شامل تھے۔ تصویر میں وہ اپنے یورپی و پاکستانی ساتھیوں کی تصاویر دکھا رہے ہيں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کی ہمسایہ چوٹی : براڈ پیک
براڈ پیک بھی آٹھ ہزار سے بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ہے۔ بلتی زبان میں اسے فَلچن کنگری پکارا جاتا ہے۔ یہ کوہ قراقرم کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کو سر کرنے والے ایرانی کوہ پیما رامین شجاعی اپنے ملکی پرچم کے ساتھ۔