پاکستان: جماعت الاحرار کی ویڈیو، دہشتگردی کی نئی لہر کا خطرہ
14 فروری 2017جماعت الاحرار کے عسکریت پسندوں نے اپنے اس آپریشن کو لال مسجدکے غازی عبدالرشید سے موسوم کیا ہے، جنہیں مشرف دور میں اسلام آباد میں اس مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کی ان نئی عسکری کارروائیوں کا ہدف پاکستانی فوج، پارلیمنٹ، عدلیہ، پولیس اور حکومتی خفیہ اداروں کے علاوہ کئی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی ہوں گے۔ اس ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ مساجد، مدارس اور عید گاہوں جیسے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اس ویڈیو بیان سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں سرگرم عسکری گروپوں کی کمر ابھی تک نہیں ٹوٹی اور وہ ایک بار پھر ملک بھر میں عسکری کارروائیاں کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ شعیب امجد نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ عسکری گروہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ اب سردی ختم ہو رہی ہے۔ سرحدوں پر سخت نگرانی کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستانی طالبان کی نقل و حرکت میں تیزی آ سکتی ہے۔ امریکا اور افغانستان اسلام آباد سے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پوچھتے ہیں لیکن حکومت کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ کابل انتظامیہ سے پاکستانی طالبان کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے کوئی سوال کرے۔ روس اور چین افغان طالبان سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ دبئی میں ان کے کاروبار تک ہیں۔ لیکن سوال صرف پاکستان سے کیا جاتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سب کچھ بھارت کرا رہا ہے۔ ’’را نے افغان طالبان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی خاطر پاکستانی طالبان کو ملا کر داعش بنائی لیکن جب روس کو داعش پر تشویش ہوئی توبھارت نے ٹی ٹی پی کے سارے دھڑوں کو ایک بار پھر متحد کر کے انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔‘‘
لیکن کئی اور تجزیہ نگار جنرل امجد کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ریاست کو اپنا دوہرا معیار ختم کرنا پڑے گا۔ جماعت الاحرار کے ویڈیو بیان کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب تک ہم اچھے اور برے طالبان میں تمیز ختم نہیں کریں گے، دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔کالعدم تنظیموں کے ارکان آج بھی پنجاب اور بلوچستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ہم اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت ان کو اچھا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے ان دہشت گردوں کو قومی دھارے میں لانے کی تجویز بھی پیش کر دی ہے۔ قومی دھارے میں سیاسی کارکنوں کو لایا جاتا ہے، جو کم از کم آئین پاکستان پر تو یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی گروہ، چاہے وہ پنجابی طالبان ہوں، حقانی نیٹ ورک ہو یا دیگر کالعدم تنظیمیں ہوں، اگر وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے تو ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ دہشت گردی اسی طرح جاری رہے گی اور اس میں مزید شدت بھی آ سکتی ہے۔‘‘
دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور صحافی حسن عبداللہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں فوجی آپریشن کی وجہ سے ان عسکریت پسند گروہوں کا آپریشنل ڈھانچہ تباہ ہوا تھا۔ امریکا افغانستان میں اپنی فوجوں کی موجودگی بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور افغان حکومت بھی سرحدوں کی سخت نگرانی پر کام کر رہی ہے۔ اگر ایسا واقعی ہوگیا تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھے گی۔ لیکن اگر پاکستان کے افغانستان سے تعلقات خراب رہے اور سرحدوں کی نگرانی بھی مؤثر طور پر بہتر نہ ہوئی، تو ان حملوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ جماعت الاحرار کے شدت پسند ٹی ٹی پی میں بھی انتہائی سخت گیر سمجھے جاتے تھے اور وہ آج بھی بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘
جماعت الاحرار کے اس آپریشن کو غازی عبدالرشید کے نام سے منسوب کیے جانے پر پاکستانی لبرل حلقوں نے ایک بار پھر لال مسجد کے سرکردہ عناصر کو پرتشویش نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جماعت الاحرار کا لال مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بھارتی ایجنسی را کے لیے کام کرتی ہے اور بے گناہ پاکستانیوں کو ہلاک کرتی ہے ۔ غازی عبدالرشید کے ساتھ نام کی اس نسبت کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں۔‘‘