پاکستان: حالات بدلتے نظر نہیں آتے
6 جنوری 2012![pakistan_map.gif](https://static.dw.com/image/3081615_800.webp)
مغرب میں پاکستان کا نام گزشتہ چند برسوں سے صرف دہشت گردی کے حوالے سے ہی سامنے آیا جبکہ سال دو ہزار گیارہ میں پاکستان میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اس کی مزید بدنامی کا باعث بنی۔ اسی برس پاکستان کے دو لبرل سیاستدانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
سن دو ہزار بارہ کے آغاز پر پاکستان کی مجموعی صورتحال کچھ یوں ہے۔ بیرونی امداد بند ہو چکی ہے، معیشت لڑکھڑا رہی ہے جبکہ اندرونی سیاسی اختلافات اپنے عروج پر ہیں۔ اقتدار کا مرکز اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے اور ملکی سپریم کورٹ بھی خود کو اس سے دور نہیں رکھ سکی۔ میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے حکومت اور طاقتور فوج کے درمیان لفظوں کی جنگ جاری ہے۔ یہاں تک کے محتاط انداز بیان رکھنے والے وزیر اعظم گیلانی بھی اس میں کود پڑے ہیں، ’’ ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمان کو جوابدہ ہیں۔ آئین سے بالا تر کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘
یہاں تک کہ ملکی فوج بھی نہیں۔ یہ الفاط وزیر اعظم نے اس تقریر سے پہلے ایک تقریب کے دوران کہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان یہ شطرنج جاری ہے جبکہ ملکی اسلامی تنظیمیں سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ جماعت الدعوہ جیسی کئی اسلامی تنظیمیں اکثر احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد کو جمع کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کو مذہبی جماعتیں اپنا پہلا دشمن گردانتی ہیں، جبکہ پاکستان کے اپنے سب سے بڑے ڈونر امریکہ سے بھی تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
تعلقات میں خرابی کی بنیادی وجہ پاکستانی حدودمیں نیٹو فورسز کا وہ حملہ بنا، جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے، ’’پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی ہلاکت پرعوام غصے میں ہیں۔ پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی پر احتجاج میں وکلاء، ڈاکٹر، اساتذہ، مولوی، مزدور ہر کوئی شریک ہے۔ عبدالباسط کا مزید کہنا ہے، ’’ ہم امریکہ، نیٹو اور ایساف کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘
پاکستان میں عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے اکثر خارجہ پالیسیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آئندہ برسوں میں اصلاحات کے بجائے صرف خارجہ پالیسی کے تحت 187 ملین عوام کو خاموش رکھنا حکومت اور فوج دونوں کے لیے مشکل ہوگا۔ پاکستان کے مشہور رائٹر احمد رشید ہوا کے تازہ جھونکے کی امید رکھتے ہیں لیکن تبدیلی کے لیے وہ قبل از وقت انتخابات کی خواہش رکھتے ہیں، ’’پاکستان کی تاریخ دوبارہ لکھی جانا چاہیے۔ لیکن اس کی بنیاد سازشی نظریات، ماضی کا تکبر اور فوج نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
رپورٹ: ساندرا پیٹرز مان / امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل