1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: حالات بدلتے نظر نہیں آتے

6 جنوری 2012

حالات کا جائزہ لیا جائے تو اب بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ پاکستان دہشت گردی سے جڑے اپنے نام سے بہت جلد چھٹکارہ حاصل کر پائے گا۔

pakistan_map.gif
تصویر: DW-Montage

مغرب میں پاکستان کا نام گزشتہ چند برسوں سے صرف دہشت گردی کے حوالے سے ہی سامنے آیا جبکہ سال دو ہزار گیارہ میں پاکستان میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اس کی مزید بدنامی کا باعث بنی۔ اسی برس پاکستان کے دو لبرل سیاستدانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

سن دو ہزار بارہ کے آغاز پر پاکستان کی مجموعی صورتحال کچھ یوں ہے۔ بیرونی امداد بند ہو چکی ہے، معیشت لڑکھڑا رہی ہے جبکہ اندرونی سیاسی اختلافات اپنے عروج پر ہیں۔ اقتدار کا مرکز اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے اور ملکی سپریم کورٹ بھی خود کو اس سے دور نہیں رکھ سکی۔ میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے حکومت اور طاقتور فوج کے درمیان لفظوں کی جنگ جاری ہے۔ یہاں تک کے محتاط انداز بیان رکھنے والے وزیر اعظم گیلانی بھی اس میں کود پڑے ہیں، ’’ ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمان کو جوابدہ ہیں۔ آئین سے بالا تر کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘

اسامہ بن لادن کی ہلاکت پاکستان کی مزید بدنامی کا باعث بنیتصویر: picture-alliance/abaca

یہاں تک کہ ملکی فوج بھی نہیں۔ یہ الفاط وزیر اعظم نے اس تقریر سے پہلے ایک تقریب کے دوران کہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان یہ شطرنج جاری ہے جبکہ ملکی اسلامی تنظیمیں سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ جماعت الدعوہ جیسی کئی اسلامی تنظیمیں اکثر احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد کو جمع کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کو مذہبی جماعتیں اپنا پہلا دشمن گردانتی ہیں، جبکہ پاکستان کے اپنے سب سے بڑے ڈونر امریکہ سے بھی تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

اقتدار کا مرکز اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے اور ملکی سپریم کورٹ بھی خود کو اس سے دور نہیں رکھ سکیتصویر: dapd

تعلقات میں خرابی کی بنیادی وجہ پاکستانی حدودمیں نیٹو فورسز کا وہ حملہ بنا، جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے، ’’پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی ہلاکت پرعوام غصے میں ہیں۔ پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی پر احتجاج میں وکلاء، ڈاکٹر، اساتذہ، مولوی، مزدور ہر کوئی شریک ہے۔ عبدالباسط کا مزید کہنا ہے، ’’ ہم امریکہ، نیٹو اور ایساف کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

پاکستان میں عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے اکثر خارجہ پالیسیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آئندہ برسوں میں اصلاحات کے بجائے صرف خارجہ پالیسی کے تحت 187 ملین عوام کو خاموش رکھنا حکومت اور فوج دونوں کے لیے مشکل ہوگا۔ پاکستان کے مشہور رائٹر احمد رشید ہوا کے تازہ جھونکے کی امید رکھتے ہیں لیکن تبدیلی کے لیے وہ قبل از وقت انتخابات کی خواہش رکھتے ہیں، ’’پاکستان کی تاریخ دوبارہ لکھی جانا چاہیے۔ لیکن اس کی بنیاد سازشی نظریات، ماضی کا تکبر اور فوج نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

رپورٹ: ساندرا پیٹرز مان / امتیاز احمد

ادارت: ندیم گِل

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں