پاکستان : حکمران جماعت میں اختلافات
14 جنوری 2009پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان سے رابطوں کی وجہ سے ساجدہ میر کومستعفی ہونے کے لیے کہا تھا۔
ساجدہ میرچند روزپہلے لاہورمیں ذوالفقارعلی بھٹو کی یاد میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں موجود تھیں جس میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے ناہید خان نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
صوبائی پارلیمانی لیڈرراجہ ریاض کی ہدایت پرسپیکرپنجاب اسمبلی کو استعفی پیش کرنے کے بعد ساجدہ میر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈرراجہ ریاض نے کہا تھا کہ آپ کی تصویر کو شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے ناہید خان کے ساتھ ٹی وی پر دیکھا ہے اس لیے پارٹی کے شریک چئیرمین کا حکم ہے کہ آپ سے استعفی لے لیا جائے۔ ساجدہ میرکہتی ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے ناہید خان کے ساتھ کارکنوں کے رابطے پر پابندی ہے تو پھرپارٹی کے کارکنوں پریہ بات واضح کردینی چاہیے۔ انہوں نے کہا: ’’ میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میں تواس ناہید کے پاس گئی تھی جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چوبیس گھنٹے رہتی تھی۔
یہ وہی ناہید خان تھی جو ہمارے ساتھ سڑکوں پر ماریں کھاتی تھی اورجیلوں میں جاتی تھی۔‘‘ ساجدہ میرکے مطابق راجہ ریاض نے انہیں واضح طور پر کہا کہ ان پر اسلام آباد سے بہت دباؤ ہے اس لیے میں فوری طورمستعفی ہوجاؤں۔ ’’پارٹی قیادت کے واضح احکامات کے بعد میں نے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے اپنا استعفی سپیکر کو پیش کردیا جنہوں نے اسے قبول بھی کرلیا۔‘‘ ساجدہ میر نے کہا:’’مجھے پارٹی کے بہت سے عام کارکنوں کے فون موصول ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کوئی غریب شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی بیٹی ساجدہ میر بنے۔‘‘
ممتاز کالم نگار حسن نثارکہتے ہیں کہ اصولوں سے عاری پاکستانی سیاست میں ایسے واقعات حیرت کا باعث نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو نظر انداز کرنے کا یہ واقعہ پہلا نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست میں کئی ساجدہ میروں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں جنہوں نے کوڑے کھائے اور خود سوزیاں کیں، آج ان لوگوں کے خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ طاقت کے کھیل میں کارکنوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جس ملک میں وزیر اعظم جاگیردارہو صدر ایک قبیلے کا سردارہواورپنجاب میں سرمایہ دار حکومت کررہے ہوں ایسی جمہوریت میں کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کس سے کیا جاسکتا ہے۔ نظریاتی سیاست ختم ہوچکی اب ہر طرف مارا ماری ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے بے نظیر بھٹوکے قریبی لوگوں سے ناراضگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلےناہید خان اعتزازاحسن، صفدرعباسی، غلام عباس اورعبدالقادر شاہیں سمیت کئی لوگ ناپسندیدہ قرارپاچکے ہیں۔ ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں ان کارکنوں سے بازپرس کی جارہی ہے جنہوں نے پچھلے کچھ دنوں میں ناہید خان کے پروگراموں میں شرکت کی تھی۔
پیپلز پارٹی کےیہ ناراض کارکن آپس میں رابطے کررہے ہیں بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگریہ صورت حال آنے والے دنوں میں بھی جاری رہی تو پھر چودھری اعتزاز احسن کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا شہید بے نظیر بھٹو گروپ بھی وجود میں آسکتا ہے۔