1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: حکومت متنازعہ قانون سازی سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

عثمان چیمہ
5 نومبر 2024

ناقدین کا کہنا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا عجلت میں کیا گیا فیصلہ ملکی اداروں کے لیے خطرناک ہے۔ حکومتی اراکین اس فیصلے کو ملک میں استحکام کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔

Pakistan Asif Ali Zardari (R) neuer Präsident
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

پاکستان میں حکومت کی جانب سے پیر کے روز ملکی  مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت،  سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کے لیے کی گئی قانون سازی کو بعض سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے انتہائی اجلت میں کیے گئے 'تباہ کن‘ فیصلے قرار دیا جا رہا ہے۔

ممتاز سیاستدان فرحت اللہ بابر نے حالیہ قانون سازی کو مکمل تباہی قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''مجھے شدید مایوسی ہوئی ہے، یہ بالکل صحیح فیصلہ نہیں ہے۔  سربراہوں کی طویل مدت کے باعث اداروں کے اندر جمود پیدا ہوتا ہے۔ مدت کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ ادارے میں جمود نہ ہو۔ یہ ادارے کے اندر تناؤ پیدا کرتا ہے۔‘‘

پاکستان میں مسلح افواج کے سربراہ کا عہدہ ہمیشہ سے طاقتور ترین رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس کی مدت میں اضافے نے اسے مزید مظبوط کر دیا ہےتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

’ملکی ادارے داؤ پر‘

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے زیادہ سے زیادہ اور طویل المدتی اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ طویل عرصے تک اقتدار  برقرار رکھ سکے۔  حکومت کی جانب سے جو تین متنازعہ بل منظور کیے گئے ان  میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے۔

 اس قانون سازی کے ذریعے آرمی چیف، ایئر چیف، اور نیول چیف کی ریٹائرمنٹ  کی عمر کی حد جو پہلے 64 سال تھی، وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔

ایسے وقت میں جبکہ حکومت نے مسلح افواج کے تمام سربراہان کی مدت ملازمت بڑھائی ہے، کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ اس قانون سازی کا بنیادی مقصد چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر کو مزید مدت کے لیے اس اہم ترین عہدے پر برقرار رکھنا ہے۔

 بظاہر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدد سے اپنی حکمرانی کو دس سال تک برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور امکان ہے کہ انہیں مزید پانچ سال کی توسیع دی جائے گی۔

فوجی افسران کی ترقیاں متاثر

ناقدین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بظاہر ایک جمہوری حکومت نہ صرف جمہوریت کے تانے بانے کو تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح افواج کے ادارے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے تاکہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار سے دور رکھا جا سکے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی قانون سازی کی سے فوجی افسران کی ترقیوں کا عمل بھی متاثر ہو گاتصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture-alliance

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ مکمل طور پر ایک سیاسی اقدام ہے جس کے ذریعے حکومت نے چیف آف آرمی اسٹاف کو دس سال تک برقرار رکھنے کی طاقت حاصل کر لی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آج ان کے پاس یہ طاقت ہے اور مستقبل میں یہی قانون سازی کسی اور کے کام آئے گی"۔

انہوں نے مزید کہا، ''اس قانون سازی کے ذریعے حکومت خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ اسے فوجی مداخلت کی شکایت نہیں کرنی چاہیے جبکہ یہ خود فوجی ادارے کے سربراہ کو ملکی معاملات چلانے کا مزید اور لمبے عرصے تک کا کنٹرول دے رہی  ہے۔ اس قانون سازی کے نتائج نہ صرف جمہوری نظام پر مرتب ہوں گے بلکہ مسلح افواج کے ادارے کے داخلی ڈھانچے کو بھی متاثر کریں گے۔‘‘

ریٹائرڈ جنرل لودھی نے بتایا کہ ایک آرمی آفیسر کو عام طور پر 52 سے 54 سال کی عمر میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے۔ قواعد کے مطابق ہر لیفٹیننٹ جنرل کو 57 سال کی عمر میں یا چار سال کی سروس' دونوں میں سے جو بھی پہلے آئے، کے بعد ریٹائر ہونا ہوتا ہے ۔ آرمی میں اس وقت بائیس لیفٹیننٹ جنرل ہیں اور وہ یقینی طور پر اس سے متاثر ہوں گے۔

آرمی چیف پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور

نئے قانون کے تحت جب کسی ایک لیفٹیننٹ جنرل کو چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دیا جائے گا تو دیگر تمام لیفٹیننٹ جنرلز کو اس وقت تک ریٹائر ہونا پڑے گا جب انہیں اگلا آرمی چیف بننے کا موقع ملے۔ یہاں تک کہ کچھ میجر جنرلز جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے قریب ہیں، انہیں بھی ترقی سے پہلے ریٹائر ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ادارے کے داخلی قواعد میں بھی تبدیلیاں درکار ہوں گی۔

پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر تصویر: Inter-Services Public Relation Department/AP Photo/AP Photo/picture alliance

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اگر آرمی چیف کو پانچ سال کی توسیع دی جاتی ہے تو یہ اور بھی بڑا نقصان ہوگا۔  انہوں نےکہا،''یونیفارم میں ملبوس شخص اب پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی حکومت پر دباؤ ڈال سکے گا۔‘‘

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ موجودہ سیاستدان اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ اقدام ان کے اپنے ہی خلاف بھی جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، "ذرا تصور کریں کہ کسی ایسے ناپسندیدہ آرمی چیف کو ہٹانا کتنا مشکل ہو جائےگا، جس کے پاس پانچ سال کی سروس ہوگی۔ حکومت کسی طرح تین سال تو گزارا سکتی ہے لیکن پانچ سال کے لیے کسی ایسے شخص کے ساتھ ڈیل کرنا جسے آپ نہیں چاہتے، بہت مشکل ہوگا۔‘‘

تاہم حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور اہم قومی پالیسیوں میں تسلسل آنے کے سبب  ملکی ادارے مظبوط ہوں گے۔

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

22:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں