پاکستان: داعش کے مقامی سربراہ کی گرفتاری کی متضاد خبریں
21 جنوری 2015نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ لاہور میں جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ داعش کا مقامی سربراہ ہے۔ روئٹرز کے مطابق پاکستانی خفیہ اداروں کے تین اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق گرفتار ہونے والے شخص کا نام یوسف السلفی ہے اور دوران تفتیش اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پاکستان میں داعش کا نمائندہ ہے۔
دوسری جانب پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تردید کی ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے نہ کہ اسلامک اسٹیٹ سے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوسف السلفی پاکستانی نژاد شامی ہے، جو پانچ ماہ پہلے ترکی کے راستے پاکستان پہنچا تھا۔ روئٹرز نے لکھا ہے، ’’یوسف السلفی شام ترک سرحد عبور کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا لیکن وہ کسی طریقے سے فرار ہونے میں کامیاب رہا اور آئی ایس کی شاخ قائم کرنے کے لیے پاکستان پہنچا۔‘‘ اس خبر کی بھی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
نیوز ایجنسی نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ گرفتار ہونے والا حافظ طیب نامی دوسرا شخص لاہور کی ایک مسجد کا امام ہے اور وہ بھی اسلامک اسٹیٹ کے لیے پاکستانی جنگجوؤں کی بھرتی میں ملوث ہے۔ بتایا گیا ہے کی فی کس آدمی کے حساب سے داعش ان کو چھ سو ڈالر فراہم کرتی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گرفتار ہونے والے تیسرے شخص کا نام ڈاکٹر فواد ہے اور اس کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ اے ایف پی کے مطابق یوسف السلفی نے ڈاکٹر فواد ہی کے ذریعے گوجرانوالہ اور اس کے مضافات میں مختلف مدرسوں کے دورے کیے تھے۔ اسی نیوز ایجنسی کے مطابق یوسف السلفی نے گزشتہ پانچ ماہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بھی دورے کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کے اندر پائے جانے والے انتشار اور تنازعات کی وجہ سے متعدد عسکریت پسند آئی ایس کی حمایت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس کا جنوبی ایشیا میں کوئی بھی آپریشنل لنک نہیں ہے۔
قبل ازیں دس جنوری کو منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد کو دیگر جنگجوؤں کے ساتھ دکھایا گیا تھا، جس میں ان عسکریت پسندوں نے اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں خیبر پختونخوا حکومت نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ صوبے میں داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں تحقیقات کر کے ایک رپورٹ تیار کی جائے۔ یہ احکامات بلوچستان حکومت کی جانب سے ارسال کردہ اُس رپورٹ کے بعد دیے گئے تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ داعش پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے سرگرم ہوچکی ہے۔