1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ديہی علاقوں ميں ’غيرت کے نام پر قتل‘ ايک جيتی جاگتی حقيقت

عاصم سليم17 نومبر 2014

پاکستان اور بالخصوص جنوبی صوبہ سندھ کے کچھ علاقوں ميں غيرت کے نام پر قتل آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ايک غير سرکاری تنظيم کے مطابق 2008ء سے اب تک تين ہزار سے زائد عورتيں ايسی رسموں کے نتيجے ميں لقمہ اجل بن چکی ہيں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

اپنے ہاتھوں ميں قرآن پاک ليے رضيہ شيخ آسمان کی طرف ديکھتی ہے۔ اُس کی آنکھيں نم ہيں۔ شايد وہ خدا سے اپنی اُن دونوں بيٹيوں کے ليے انصاف مانگ رہی ہے، جن ميں سے ايک کو اُسی کے رشتہ داروں نے انتقام کی آگ ميں غيرت کے نام پر قتل کر ديا تھا جبکہ دوسری ابھی تک لاپتہ ہے۔ قريب چاليس برس کی عمر والی اِس عورت نے اپنی بيٹيوں کی تصويريں دکھائيں، ايک کی آنکھيں زندگی کے نجانے کتنے خواب ليے چمک رہی ہيں تو دوسری کفن کا لباس پہنے خاموش پڑی ہے۔

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر سکھر سے تعلق رکھنے والی رضيہ شيخ اُن ان گنت عورتوں ميں سے ايک ہے، جسے غيرت کے نام پر يا کسی ’جرم‘ کی سزا کے طور پر کاروکاری کی رسم کے تحت اپنی بيٹيوں کی قربانی دينا پڑی۔ پاکستان ميں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے ليے کام کرنے والی ايک تنظيم عورت فاؤنڈيشن کے مطابق 2008ء سے اب تک تين ہزار سے زائد عورتيں اِس رسم کے نتيجے ميں اپنی جانيں کھو چکی ہيں۔

عورت فاؤنڈيشن کے مطابق 2008ء سے اب تک تين ہزار سے زائد عورتيں اِس رسم کے نتيجے ميں اپنی جانيں کھو چکی ہيںتصویر: DW

دريائے سندھ کے کنارے سچل شاہ ميانی نامی ايک ديہات ميں اپنے ايک کمرے کے مکان کے باہر چارپائی پر بيٹھی رضيہ اپنی روداد سناتی ہے۔ اُس کی پہلی بيٹی خالدہ سن 2010 ميں کراچی شہر سے اپنے سسرال سے لاپتہ ہو گئی تھی، جس کا آج تک کوئی سراغ نہيں مل سکا ہے۔ خالدہ کے سسرال والے اِس گمشدگی کا الزام نہ جانے کيوں رضيہ پر ہی عائد کرتے ہيں۔ ابھی رضيہ اپنی بيٹی کے لاپتہ ہونے کا غم سہ ہی رہی تھی کہ خالدہ کے سسرال والوں نے رضيہ سے يہ مطالبہ شروع کر ديا کہ وہ اپنی چھوٹی بيٹی کی شادی خالدہ کے خاوند کے بھائی سے کر دے۔ رضيہ شيخ کے انکار کرنے پر تين افراد نے اُس کے گھر ميں داخل ہو کر اور اُس کی بيٹی پر ’ناجائز تعلقات‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے اُسے گولياں مار کر ہلاک کر ديا۔ رضيہ آج بھی انصاف کی منتظر ہے اور قاتل کھلے گھوم رہے ہيں۔ اپنی آنکھوں ميں آنسو ليے وہ کہتی ہے، ’’خدا کے ليے ميں وزراء، ججوں اور پوليس سے اپيل کرتی ہوں کہ وہ مجھے انصاف دلائيں۔‘‘

کاروکاری جيسی رسميں يا غيرت کے نام پر قتل پاکستان کے کئی ديہی علاقوں ميں آج بھی ايک مسئلہ ہے۔ ايسے عوامل کے خلاف سرکاری اقدامات کچھ زيادہ رنگ نہيں لا پائے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ پاکستانی قوانين مقتول کے رشتہ داروں کو يہ اختيار ديتے ہيں کہ وہ خون کے بدلے رقم دے کر ’معافی‘ حاصل کر سکتے ہيں، جسے ’خون بہا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سندھ ميں کارو کاری کی لعنت کو روکنے کے ليے ايک 2008ء ميں ايک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی اور اس فورس کی سربراہی ارم آوان کر رہی ہيں۔ وہ بتاتی ہيں، ’’اکثر اوقات ’غيرت‘ تو صرف بہانہ ہی ہوتا ہے، قتل کا اصل مقصد بہنوں اور بيٹيوں کو جائيداد کا حصہ نہ دينا ہوتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ صرف عورتيں ہی ايسے مسائل کا شکار نہيں بنتيں بلکہ مرد بھی ان کے چنگل ميں پھنس سکتے ہيں۔ سکھر کے مقين محمد حسن کے مطابق ايک مقامی وڈيرے نے ان کی زمين پر قبضے کی کوشش کرتے ہوئے اسے ’کارو‘ قرار دے ديا تھا اور وہ اُس وقت سے فرار ہے۔

پاکستان اور بالخصوص سندھ کے کئی علاقے آج بھی جاگيردارانہ نظام کی گرفت ميں ہيں۔ ايسے علاقوں ميں کرمنل جسٹس يا جرائم سے متعلق معاملات ميں انصاف کا معيار کافی کم ہے۔ ايسے علاقوں ميں طاقت جاگيرداروں کے پاس ہوتی ہے۔ اگرچہ کاروکاری جيسے رسميں جنوبی ايشيا ميں صديوں سے پائی جاتی ہيں تاہم برطانوی راج کے دوران ايسی رسميں کافی کم ہوئی تھيں کيونکہ برطانوی حکام ايسے واقعات کا سختی سے نوٹس ليا کرتے تھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں