گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسلام آباد میں جاری بظاہر ایک عام سا احتجاجی مظاہرہ اب ملک گیر بحران کا سبب بن چکا ہے۔ ان مظاہرین کے بارے میں چند اہم باتیں درج ذیل ہیں۔
اشتہار
چھ نومبر کے روز تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قریب دو ہزار کارکنوں نے اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کیا۔ اس تنظیم کے سربراہ خادم حسین رضوی ہیں جنہیں تقریروں کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے باعث تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے کارکن بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام طور پر صوفی سلسلوں کے پیروکاروں کو معتدل تصور کیا جاتا ہے لیکن سن 2016 میں ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد اس بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم کے نظریات میں شدت دیکھی گئی تھی۔
فیض آباد انٹر چینج میدان جنگ بن گیا
01:42
تحریک لبیک یا رسول اللہ نے اس دھرنے کا آغاز حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف میں کی گئی ایک تبدیلی کے خلاف شروع کیا تھا۔ اس حلف کی تحریر میں کی گئی اس تحریف کو حکومت نے فوری طور پر ایک غلطی قرار دے کر حلف کو واپس اپنی گزشتہ حالت میں بحال بھی کر دیا تھا۔
تاہم مظاہرین اس تبدیلی کو توہین مذہب قرار دے رہے ہیں جو کہ پاکستان جیسے قدامت پسند اسلامی معاشرے میں ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ہفتے کے روز پولیس کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا جانے والا آپریشن پرتشدد صورت حال اختیار کر گیا جس کے بعد ملک بھر میں اس آپریشن کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ’پیغمبر اسلام کی حرمت‘ کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کیا۔ اس تنظیم کے فیس بُک پیج کے مطابق وہ ’ملک میں شریعت نافذ‘ کرنا چاہتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں بھی یہ تنظیم اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ستمبر میں لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں اس تنظیم نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر جاری اس دھرنے کے باعث عام شہریوں کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ عدالت نے بھی حکومت کو دھرنا ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔
مظاہرین سویلین حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں، حفیظ نیازی
01:02
This browser does not support the video element.
ہفتے کے روز ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں نے بلآخر مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپریشن کے فوراﹰ بعد کراچی اور لاہور جیسے دوسرے بڑے شہروں میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے اور آخر کار آپریشن روکنے کا فیصلہ کیا گیا اور حکومت نے فوج سے مدد طلب کر لی۔
قبل ازیں حکومت کئی دنوں تک مذاکرات کے ذریعے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔ اگلے برس کے عام انتخابات کے تناظر میں حکمران جماعت سخت فیصلے کرنے سے گریز کر رہی تھی۔
ملکی فوج نے تاہم ابھی تک حکومت کی درخواست پر اپنا کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی ابھی تک سڑکوں پر کہیں فوجی دستے دکھائی دے رہے ہیں جس کے بعد دھرنا ختم کرنے میں ’فوج کے تذبذب‘ کے بارے میں بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
واشنگٹن میں ولسن سینٹر سے وابستہ مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’فوج کے جنرل شاید اس امید میں ہیں کہ دھرنے کے شرکا ملک کی طاقتور فوج کا سامنا کرنے سے پہلے ہی منتشر ہو جائیں گے‘۔
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔