امریکا نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’ڈبل گیم‘ کھیل رہا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر اسے امریکی امداد چاہیے تو اسے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
اشتہار
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کر سکتے ہیں۔ ہم ان سے یہی چاہتے ہیں۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں وہ پاکستان کی بابت نئے اقدامات کا اعلان کر دیں گے، تاکہ پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نِکی ہیلی نے کہا تھا کہ واشنگٹن حکومت پاکستان کو دی جانے والی 255 ملین ڈالر کی امداد روک رہی ہے۔
نیویارک میں صحافیوں سے بات چیت میں ہیلی نے کہا، ’’اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے۔ پاکستان کئی سالوں سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں ہمارے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ دہشت گردوں کو پناہ بھی دیتے ہیں، جو افغانستان میں ہمارے فوجیوں پر حملے کرتے ہیں۔‘‘
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ کھیل امریکی انتظامیہ کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ ہم پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون میں بے حد اضافہ چاہتے ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ نئے سال کے آغاز پر اپنے پہلے ٹوئٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کو پچھلے پندرہ برسوں میں بے وقوفانہ طور پر اربوں ڈالر کی امداد دی گئی، مگر اس کے بدلے پاکستان کی جانب سے امریکا کو فقط جھوٹ اور دھوکا ملا۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے ہیں، وہ انہیں اپنے ہاں محفوظ جگہ دیتے ہیں اور ہماری بہت کم مدد کرتے ہیں، مگر اب بس۔‘‘
پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت نے منگل کے ان الزامات کو ’ناقابل فہم‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ پاکستان نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو اسی تناظر میں دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج بھی کیا۔
صدر ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے
01:31
اقوام متحدہ میں تعینات پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوت سے کارروائیاں کرتا رہا ہے اور یہ کارروائیاں کسی امداد کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات اور اصولوں پر کی گئیں۔
''ہم نے اپنا حصہ ملایا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں اور اسی تناظر میں دنیا کا سب سے بڑا انسدادِ دہشت گردی آپریشن ہم نے کیا۔ اگر ہمارے تعاون کو سراہا نہیں جاتا، تو ہم اس پر نظرثانی کریں گے۔‘‘